آج اہل سنت والجماعت میں اختلاف و انتشار کا ماحول،اکابر میں دوریاں کہ ایک اسٹیج پر فلاں ہوگا تو فلاں نہیں جائے گا، فروعی اختلافات پر منفی شور قیامت، نظریاتی اختلاف کو صغری کبری فٹ کرکے عقائد کا اختلاف قرار دینا پھر نتیجے میں اکابرین کی پگڑیاں اچھالنا ان کی جانب فحش کلمات کو منسوب کرنا عوام کو ان کے خلاف بد ظن کرنا وغیرہ وغیرہ آج انہیں چیزوں نے مسلک اہل سنت کو اقدامی محاذ سے دفاعی محاذ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
اور فیس بک پر مناظرہ کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ آج ایک عام شخص جس کو نماز پڑھنے کا مکمل طریقہ بھی نہیں معلوم وہ بھی جانتا ہے کہ فلاں عالم کا فلاں عالم سے اختلاف چل رہا ہے۔
اور اسی آپسی اختلاف کی بنیاد پر عوام بھی ژولیدگی کا شکار ہے کہ آخر ہم کن اکابر کو مانیں کہ ہر شخص تو ایک دوسرے کے نزدیک غلط ہے جسکا فائدہ دیوبندی اور وہابی اٹھا رہے ہیں کہ پورا پورا گاؤں علاقہ ان کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہوتا نظر آرہا ہے۔
اس کے برعکس
دیوبندی وہابی مکتب فکر کے اندر بھی ابتداء ہی سے بہت تنوع رہا ہے ۔ علماء دیوبند کا آپس میں علمی و سیاسی اختلاف رہا لیکن مجال ہے کہ اتنے سخت اختلاف کے باوجود کبھی کسی نے دوسرے کو غیروں کا ایجنٹ ، فکری مرعوبیت کا شکار ، دوسروں کے ذہن میں زہر گھولنے والا ، یا گستاخ، ضال مضل کہا ہو یا پھر آپس میں ملاقاتیں بند کی ہوں ۔
آج سوشل میڈیا پر جو بحث و مباحثہ کی مجلسیں لگی ہوئی ہیں اور وقت کو بیکار چیزوں میں استعمال کیا جارہا ہےان میں 99فیصد افراد اہل سنت والجماعت کے نظر آئیں گے۔
اور آخر اغیار سوشل میڈیا پر بحث مباحثہ کرتے کیوں نظر نہیں آتے؟؟ وہ جانتے ہیں کہ اس میں تعمیر سے کہیں زیادہ نتیجہ تخریب ہوگا۔
#احمد_صفی
I'm Ahmad Safi, I'm a student, it is my blog,through it I will present my ideology and my approach.
Monday, 25 June 2018
بھٹکے ہوے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
خوگر حمد سے اہل مدارس تھوڑا سا گلہ سن لیں
تحریر۔احمد صفی
پچھلے ڈیڑھ سو سال کے اندر بر صغیر ہند میں اسلام اور ملت اسلامیہ کے تحفظ کے لیے متعدد تحریکیں اٹھیں ان تحریکوں کی ایک کڑی تحریک مدارس بھی ہے حالانکہ ان تحریکوں نے وقتی طور کے لیے تو اثر دکھایا لیکن تا دیر قائم نہ رہ سکیں سوائے تحریک مدارس کے کہ علماء ہند نے مدارس کے قیام کے سلسلے میں جو کوششیں کی تھیں وہ انیسویں صدی سے لیکر آج تک پھیلی ہوئی ہیں اور یہی مدارس اسلام کے قلعے ٹھرے اور اسی مدارس کے فارغین نے اسلام اور ملک کی حفاظت کے لیے بے حد قربانیاں دیں ۔
جس مدارس نے کبھی علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا آزاد، مولانا علی رضا خان عابدی، مفتی عنایت احمد کاکوری، مولانا کفایت اللہ وغیرہ وغیر جیسے عظیم ہیرے جواہرات پیدا کیے تھے
کیا اب ان مدارس میں ایسے پروڈکٹس بننا بند ہوگئے ہیں؟
کہ صرف ہندوستان میں ہر سال ایک سروے کے مطابق 12000طلبہ فارغ ہوتے ہیں اس کے باوجود اچھے داعی، اچھے قائد، اچھے مفسر، اچھے محدث، اچھے قاری ،اچھے خطیب کا رونا کیوں ہے؟؟
حالانکہ نہ وہ دنیاوی کسی میدان میں نظر آتے ہیں مثلا فوج ہو ،عدالت ہو صحافت ہو، سفارت ہو وغیرہ وغیرہ
آخر وہ کہاں جاتےہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ انہیں زمین کھا لیتی ہے یا پھر آسمان اچک لیتا ہے؟
یا پھر مدارس انہیں اس لائق ہی نہیں بناتا کہ وہ مدرسہ، مسجداور مکتب کے علاوہ دوسرے میدانوں میں روزگارکے مواقع دستیاب کر سکیں ؟؟؟
اس میں آخر غلطی کس کی ہے مدارس کی یا پھر بچوں کی؟؟؟
95%غلطی مدارس کی ہے کہ موجودہ زمانے میں مدارس مسلک و مشرب کے نام پر قربان ہو گیے کہ تمام مسالک والوں نے اپنے اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت کے لئے مداس کا سہارا لیا اور اپنے مسلکی نظریے کے تناظر میں طلبہ کی پروش کرنا شروع کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر مسالک کا رد کرنا اور اپنے مسلک کی دعوت و تبلیغ کرنا طلبہ کےمستقبل کا ہدف بن گیا ۔اور اب مدارس سے داعی بن کر نکلنے کے بجائے مناظر بن کر نکلنے لگے ۔
امت کے راہنما بن کر نکلنے کے بجائے مسلک کے قائد نکلنا شروع ہو گیے۔
ملت اسلامیہ کا درد رکھنے والے بن کر نکلنے کے بجائے اپنے مسلک کا درد رکھنے والے نکلنا شروع ہوگیے
اہل مدارس سے گزارش یہ ہے کہ اپنے نظریات کی بھٹی میں طلبہ کے مستقبل کو مت جلاؤ بلکہ ان کی ایسی تربیت کرو کہ ملت اسلامیہ کو عظیم رہنما اور قائد مل سکیں ۔
یہ بات میں بہت ہی فخر سے کہہ رہا ہوں کہ اگر طلبہ مدارس کی اچھے طریقے سے تربیت کر دی جائے ان کو صحیح سمت دکھا دی جائے ان کے اندر یہ شعور پیدا کر دیا جائے کہ وہ اپنے اندر کی پنہا خوبیوں کو احساس کر سکیں تو وہ جس میدان میں قدم رکھے گا کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
اہل مدارس کے لیے ایک اور بات کہ آخر ان باطل تحریکوں کی کامیابی کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ ان وجوہات کو تلاش کرکے عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔
آر ایس ایس اور اس طرح کی باطل تحریکوں نے بہت بعد میں کام کرنا شروع کیا اس کے باوجود وہ لوگ ہر میدان میں اپنے افراد کو بیٹھانے میں کامیاب ہو گیے
خواہ وہ عدالت ہو یا پھر صحافت ہو یا تو پھر سفارت ہو کوئی ایسا میدان نہیں جہاں پر انہوں نے کامیابی نہ حاصل کی ہو۔
ماہر نفسیات ان کے یہاں، ماہر تعلیمات ان کے یہاں اس کے علاوہ مختلف رسرچر ان کے یہاں ہیں ۔
اگلی تحریر ۔طلبہ مدارس سے شکوہ
طلبہ مدارس بھی تھوڑا سا گلہ سن لیں
طلبہ مدارس بھی تھوڑا سا گلہ سن لیں
تحریر ۔احمد صفی
میں جانتا ہوں کہ میری اس تحریر سے طلبہ مدارس کو تکلیف ہوگی لیکن میں پیشگی معزرت چاہتا ہوں اور مذکورہ خامیوں سے میں بھی مستثنیٰ نہیں ۔
اس بزم سے مقصود ہے اصلاح مفاسد
نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا۔
آغاز علامہ اقبالؒ کے اس شعر سے
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے مخاطب طالب علم ہیں ۔کیونکہ طالب علم کا تعلیمی دور اس کے مستقبل والے زندگی پر گہرے نقوش مرتب کرتا ہے۔زمانہ طالب علمی میں ان کی تربیت کا عمل جس قدر شفاف اور کارآمد ہوگا اسی قدر قوم کو ان کا تابناک مستقبل دیکھنے کو ملے گا ۔
آزادی ہند کے پیچھے صداقت، عدالت شجاعت کے لباس سے مزین جو افراد تھے وہ مدرسے کے طالب علم ہی تھے۔
اور دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے انقلاب آئے خواہ وہ مادی انقلاب ہوں یا پھر تعلیمی وہ انہیں کے بدولت آئے۔
اے مدرسے کی ٹوٹی پھوٹی چٹائی پر بیٹھ کر علم حاصل کرنے والے اٹھ اور دنیا والوں کو بتا دے کہ کل بھی ہم اقوام عالم کے امام تھے اور آج بھی اپنے علم کی بدولت دنیا والوں کو اپنی تقلید پر مجبور کر سکتے ہیں پر اس کے لیے ہمیں اقبال کا شاہین بننا ہوگا ہمیں اپنی خامیوں کو دور کرکے خوبیوں میں بدلنا ہوگا، قربانیاں دینی ہوں گی ۔
مدرسے میں میں نے نو سال گزارے اور امسال دسواں ہے اور میں خود ایک طالب علم ہوں اور میں نے طلبہ کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اس بات کو میں مانتا ہوں کہ جس قدر خوبیاں اور اچھائیاں طلبہ مدارس کے اندر ہوتی ہیں وہ عصری اداروں کے پروردہ میں کم نظر آتی ہیں ۔
ان خوبیوں سے قطع نظر مجھے ان کی خامیوں پر اور طریق اصلاح پر بات کرنی ہے ۔
(1) اکثر طلبہ مدارس درسیات پر مکمل زور دیتے ہیں اخبارات، جرنلس میگزین، اور دیگر سوشلسٹ علمی ذرائع سے بہت دور ہوتے ہیں ۔
حالانکہ درسیات میں محنت کرنا غلط نہیں ہے بلکہ ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی استعمال کرنا چاہیے، تفریحی پروگرام غیر درسی تعلیمات و تحریکات میں بھی حصہ لینا چاہیے کیونکہ ان چیزوں کے ذریعے طالب علم کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔
(2)اکثر طلبہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ زیادہ رات تک پڑھنا کامیاب طالب علم کی علامت ہے یہ سوچ بلکل غلط ہے کیونکہ فزیکلی اعتبار سے آدھی رات کے بعد مائنڈ اتنی سرعت سے کام نہیں کرتا جتنی سرعت کے ساتھ باقی ٹائم میں کرتا ہے ۔اور دیر رات تک جاگنا ذہن اور حفظان صحت دونوں کے لیے مضر ہے ۔
(3)طلبہ مدارس کے اندر ایک اور کمی ہوتی ہے وہ ہے خود اعتمادی کا فقدان جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنے بڑوں سے بات کرنے میں گھبرانا،اسٹیج پر بولنے سے ڈرنا، استاد سے سوال کرتے وقت زبان کا کپکپانا وغیرہ وغیرہ ۔جس طالب علم کے اندر خود اعتمادی نہ ہو وہ ایسے امور کو انجام دے جس سے اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو مثلا کلاس میں سب سے آگے بیٹھنا،تحریر و تقریر کے مشقی پروگراموں میں حصہ لینا، بڑوں سے تبادلہء خیال کرنا وغیرہ وغیرہ۔ورنہ خود اعتمادی کا نہ ہونا کامیابی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
(4)طلبہ مدارس کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ وہ اپنے تعلیمی سفر کو بغیر کسی نصب العین کے طے کر رہے ہوتے ہیں کہ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد ان کے سامنے سوائے اندھیرے کے کچھ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اب کدھر جائیں؟ اس لیے ہمیں اپنا نصب العین متعین کرنا ہوگا اونچے خواب دیکھنے ہوں گے، بلند حوصلگی اور خود اعتمادی کا ذخیرہ پیدا کرنا ہوگا جو ہمیں بلند سے بلند پرواز پر آمادہ کر سکیں ۔
ایک بات اور عرض کروں کہ طلبہ مدارس نیورسٹی میں پڑھنے والوں سے کہیں زیادہ محنت کرتے ہیں اس کے باوجود طلبہ مدارس ان کی بنسبت کامیاب نہیں ہو پاتے کیوں؟ اس کی ایک بڑی وجہ نصب العین کا متعین نہ ہونا ہے ۔
(5)اکثر طلبہ جو کہ تعلیم میں تیز ہوتے ہیں ان کے دل میں کمزور طلبہ کے تئیں ہمدردی نہیں ہوتی مثلا ان سے گفتگو کرتے وقت سخت آواز میں بات کرنا، کسی مسئلے کو دو تین مرتبہ استفسار کر لینے پر غصہ ہو جانا اور پڑھانے سے انکار کر دینا وغیرہ وغیرہ اور یاد رکھیے یہ ایک اچھے طالب علم کی نشانی نہیں ہے ۔
اچھا طالب علم وہی ہوتا ہے جو اپنی جماعت کے کمزور بچوں کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے اور اخلاق و محبت،مفاہمت اور تال میل کے ساتھ رہنمائی بھی کرتا ہے اور ان کو اپنے ساتھ لیکر آگے بڑھتا ہے۔
(6)ایک باریک غلطی جو طلبہ کرتے ہیں وہ یہ کہ کتابوں کا مطالعہ کرتے وقت وہ اس بات پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ کتاب کتنی جلد ختم ہو جائے کہ ہم نے ایک سال میں کتنی کتابیں ختم کی ہیں ۔
لیکن جب اس کتاب کے بارے میں یا پھر اس کتاب کے کسی مسئلہ کے متعلق سوال کر لیا جاتا ہے تو عدم معرفت کا اظہار کرتے ہیں ۔
حالانکہ مطالعہ کرنے کا یہ طریقہ بلکل غلط ہے بلکہ مطالعہ اس طور پر کیا جائے کہ اگر اس کو اختصارا بیان کرنا یا لکھنا پڑ جائے تو بآسانی بیان اور لکھ سکیں ۔ورنہ فقط کتابوں کی تعداد بڑھانے سے فائدہ کچھ بھی ہونے والا نہیں سوائے تضیع اوقات کے۔
(7)95%طلبہ اس وقت اختلافی مسائل، اکابر کی اختلافی ترشیحات،مختلف فیہ شخصیات کے دفاع و رد کرنے پر بحث و مباحثہ کرنے سے بے حد دل چسپی لے رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مناظراتی روش پر طلبہ کی فکر پروان چڑھ رہی ہے ۔جماعت اختلاف کی اماجگاہ بنتی نظر آرہی ہے ،درسیاتی کتب کو چھوڑ کر اپنے نظریات کی تائید پر کتابیں چھانی جا رہی ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ جن مدارس کا قیام دعوت و تبلیغ کے لیے ہوا تھا اب انہیں مدارس سے داعی کم مناظر زیادہ نکل رہے ہیں۔ہمیں ان چیزوں کو اپنے لیے مضر سمجھنا چاہیے اور ہمیں زیادہ تر اپنی توجہ کو ایسی چیزوں کی طرف مبذول رکھنی چاہیے جس سے ہماری شخصیت میں نکھار پیدا ہو، ہمیں کامیاب بنانے میں معاون ہوں۔
ایک شعر ملاحظہ فرمائیں
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اپنی مٹی پر تو چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پر چلوگے تو پھسل جاؤگے.
مدارس بہتر یا پھر کالج؟
تحریر ۔احمد صفی
میں نے اسکول میں پانچویں کلاس تک پڑھائی کی اور باقی تعلیم مدرسے میں حاصل کی اور ہنوز جاری ہے ۔
ایک بات جو میں نے دیکھی وہ یہ کہ مدارس ہوں یا پھر کالج دونوں جگہ کچھ خوبیاں ہیں تو کچھ خامیاں بھی ہاں یہ الگ بات ہے کہ مدارس کی خوبیاں کالج سے کہیں زیادہ ہیں ۔
اور مدارس کی جو خامیاں ہیں وہ عملی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں لیکن کالج کی خامیاں نظریہ تعلیم میں نقص کا نتیجہ ہیں ۔
اور یہ بات مسلم ہے کہ عملی کوتاہیوں کو اصلاح کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے ۔اور نظریاتی خامیوں کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ خود نظریے کو مسترد نہ کیا جائے ۔
اب مدارس کی خوبیاں کالج کی خوبیوں سے زیادہ ہیں وہ کیسے؟؟؟ ملاحظہ فرمائیں ۔
(1)مدارس کی تعلیم عین سچائی اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہے ۔جبکہ کالج کی تعلیم کی بنیاد فقط ظنی ہوتی ہے۔
(2)مدارس کی تعلیم عین اسلامی تعلیم ہوتی ہے جبکہ کالج کی تعلیم میں اسلام کی جھلک بھی نہیں ہوتی ۔
(3)کالج کی تعلیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علم کو اس لائق بنا دیا جائے کہ وہ اچھا ذریعہ معاش حاصل کر سکے جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ کالج کی تعلیم حیوان کاسب بنانے کا کام کرتی ہے ۔جبکہ مدارس کی تعلیم طالب علم کے اندر خود شناسی کا شعور پیدا کرتی اور مادیت پرستی سے اوپر اٹھ کر روحانی سطح پر جینا سکھاتی ہے۔
(4)کالج طالب علم کی ذہن سازی اس طور پر کرتا ہے کہ دنیا کی مادی چیزوں کا حصول ہی ان کی آخری منزل ہے۔مدارس اپنے طلبہ کے اندر یہ فکر پیدا کرتا ہے کہ مادی چیزوں کا حصول ہماری ضرورت ہیں نہ کہ مقصد۔
(5)زندگی کی سرگرمیوں کا ایک نکتہ آغاز ہوتا ہے اور اسکی انتہا موت ہوتی ہے اور دنیا ایک شاہراہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔
کالج کے طالب علم اور مدارس کے طلبہ کی سرگرمیوں کا نکتہ آغاز ایک ہوتا ہے بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ کالج کے طلبہ اسی دنیا کو اپنی آخری منزل گمان کر لیتے ہیں اور اور طلبہ مدارس آخرت میں کامیابی کو اپنی منزل گمان کرتے ہیں ۔
(6)کالج کی تعلیم خالص دنیاوی ہوتی ہے اور مدارس کی تعلیم دینی و دنیاوی دونوں ہوتی ہے۔
یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سے انسان بنائے جات ہیں ۔
Sunday, 24 June 2018
تعلیمی نئے سال پر طلبہ کی خدمت میں چند معروضات
اور اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے نئے عزائم ،بلند حوصلوں کے ساتھ اپنے تعلیمی سفر کو شروع کریں گے۔
لیکن اس تعلیمی نئے سال پر طلبہ مدارس کی خدمت میں اس ادنی سے طالب علم کے کچھ معروضات ہیں گر قبول افتد زہے نصیب ۱-طلبہ کو چاہیے کہ اپنے اس نئے سال کی تعلیم کو شروع کرنے سے قبل اپنے ایک اچھے دوست کو علمی گائڈ بنائیں یعنی ایسا ساتھی جس سے یہ قوی امید ہو کہ وہ ہر اعتبار سے علمی، فکری اور مطالعاتی رہنمائی کر سکتا ہو اور آپ کا جو نصب العین ہے اس کے حصول کے خاطر آپ کی معاونت کرنے والا ہو اگر ایسا ساتھی دستیاب ہو جائے تو اس کے ہمراہ اپنا علمی سفر شروع کردیں ۲-آپ اپنا ایک گول، ہدف بنائیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد میدان عمل میں آپ کو کرنا کیا ہے؟ مثلا مقرر، محرر، صحافی، وکیل، ڈاکٹر وغیرھم ذالک بننا ہے۔
پھر اسی کے مطابق اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھیں اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ آپ خود کو اس میدان کے لائق بنا سکتے ہیں اور مدارس سے نکلنے کے بعد آپ کے سامنے راستے ہوں گے ۳-جب آپ اپنا نصب العین متعین کر لیں تو اب آپ کا جو ہدف ہے اس میدان میں جن شخصات نے نمایاں طور پر کامیابیاں حاصل کی ہیں ان میں سے کسی ایک کو اپنا آئڈیل بنا لیں اور پھر ان کی شخصیت کی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کریں اور ان چیزوں کا سوارغ لگائیں کہ وہ کیا چیزیں تھیں جو ان کی زندگی میں مؤثر ثابت ہوئیں اور انہوں نے یہ مقام و مرتبہ کیسے حاصل کیا؟ اور معلوم چل جانے کے بعد اپنی زندگی کے عادت و اطوار ،علمی مشغولیت اور فکری نقطۂ نظر کو ان کی زندگی کے حوالے کر دیں ۴-درسیاتی کتب کے علاوہ خارجی کتب کو بھی پڑھنا ہے اور مزید حالات حاضرہ اور موجودہ سیاسی و سماجی حالات کو سمجھنے کے لئے اخبار و رسائل کو بھی پڑھنا ہے ۵-اختلافی مسائل پر بحث و مباحثہ سے مکمل گریز کرنا ہے اور اپنی مؤثر شخصیات کے دفاع کے پیچھے وقت ضائع نہیں کرنا ہے۔۶-سوشل میڈیا کو تفنن طبع کی شوخی کا موضوع بنانے کہ بجائے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے ۔۷-ہمیں اپنے کمزور ساتھیوں کو اپنے ساتھ لیکر آگے بڑھنا ہے اور ان کو گری ہوئی نظروں سے دیکھنے کے بجائے ان کی ہر اعتبار سے مدد کرنا ہے اور ان کے چھوٹے چھوٹے علمی سرگرمیوں پر حوصلہ افزائی کرنی ہے ۔۸-اس وقت ملکی سطح پر حالات حاضرہ نا گفتہ بہ ہیں مدرسہ طاغوتی قوتوں کی نظروں میں ہیں اس لیے ہمیں سفر وحضر میں سیاسی باتیں کرنے سے یا کسی ایسی باتیں کرنے سے گریز کرنا ہے جس سے وہ ہمیں نقصان پہنچا سکیں ۔
Thursday, 21 June 2018
داعی امن کا پیامبر ہوتا ہے۔
داعی کی ذات سے امن قائم ہوتا ہے نہ کہ فتنہ۔۔
اس وقت سوشل میڈیا پر حضرت علی و حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما موضوع بحث ہیں۔اور مذکورہ موضوع کے متعلق تحریروں ک انبار لگ چکا ہے لیکن نتیجہ ابھی سوائے اس کے کچھ نہیں آیا کہ کوئی کسی کے نزدیک ناصبی بنا تو کوئی کسی کے نزدیک رافضی تو کسی کے نزدیک خارجی۔
اولا ایک بات عرض کردوں کہ اس موضوع کے متعلق اعلی حضرت علیہ رحمہ کی تحقیق انیق ہی احسن موقف ہے کہ فرق مراتب بے شمار
حق بدست حیدر کرار
مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار
اور اس تحقیق کے علاوہ دیگر نظریے متعین کرنا الفاظ کی بازی گری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔
اور اب اس موضوع کو اٹھانا امت کو فتنے میں ڈالنا ہے ۔
ثانیا یہ کہ ہاں حال ہی میں یہ بحث جہاں سے ایک نیا رخ پکڑی ہے اس کے نکتہ آغاز پر گفتگو کی جا سکتی ہے کہ امیر دعوت اسلامی کا عرس حضرت امیر معاویہ منانا غلط ہے یا صحیح؟؟ اور اس بات پر کسی شخص کو اتفاق بھی ہو سکتا ہے اور اختلاف بھی اور یہ دونوں فریق کے لئے روا نہیں کہ ایک دوسرے پر دشنام طرازی کریں کیوں کہ یہ ایک امر اضافی ہے جس پر کوئی دلیل قطعی نہیں ۔
لیکن میں یہاں پر ایک بات ذکر کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ داعی جو ہوتا وہ مصلح ہوتا اس کی ذات سے معاشرے میں امن و سلامتی قائم ہونی چاہیے نہ کہ نفرت و انتشار اور داعی کو اپنا ہر قدم قرآن و سنت کے مطابق اٹھانا چاہیے اور اپنی دعوت کے کام کو حالات کے تقاضے کے مطابق انجام دینا چاہیے تاکہ اس کی دعوت فتنے کا سبب نہ بنے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنے زمانے کے حالات کے مطابق اپنے مشن کو عام کیا تھا۔ مثلا(1)حضرت موسی علیہ السلام نے ایک زوال یافتہ امت کے درمیان اصلاحی کام کیا اور اپنے عمل کا آغاز غیروں کے خلاف جہاد کرنے کے بجائے بلکہ اپنی امت کو چالیس سال تک تربیت دی کیوں کہ اس وقت حالات ہی ایسے تھے۔
(2)حضرت نوح علیہ السلام نے ایک سرکش قوم کے درمیان اپنی دعوت کا آغاز کیا اور فورا ہی "اللہم دمر دیارھم"جیسی بد دعائیں نہیں دیں بلکہ اس کے لئے ایک لمبی مدت کا انتظار کیا ۔
(3)حضرت عیسی علیہ السلام ایسی قوم کی طرف بھیجے گئے جو ایمانی اور اخلاقی زوال کا شکار تھی تو آپ نے ان کو فضائل کی داستانیں نہیں سنائیں بلکہ وعید و تنبیہ کی زبان میں قوم کو جھنجھوڑا۔
(4)اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو غیر مسلم حکمران نے اقتدار میں شرکت کی پیش کش کی تھی تو آپ نے اصلاح کا کام انجام دینے کے لیے مفروضہ اندیش نتائج کی پرواہ کیے بغیر شریک اقتدار ہو گیے تھے ۔
(5) اتنے نبیوں کے اسلوب دعوت کا ذکر میں نے اسی پاچویں نکتے پر توجہ دلانے کے لئے باندھا تھا سمجھنے کی کوشش کریں وہ یہ حضرت ہارون علیہ السلام جو کہ موسی علیہ السلام کی جگہ قوم کی قیادت کررہے تھے تو آپ کی قوم مرتد ہو کر بجھڑے کی پوجا شروع کر دی تھی تو آپ نے ایسا نہیں کیا تھا کہ عواقب کی پرواہ کیے بغیر برائی کو مٹانے کے نام پر شور تحریک شروع کر دیا تھا بلکہ آپ نے یہ دیکھا کہ کہیں میرا برائی کو مٹانے والا قدم ایک فتنہ نہ بن جائے اور ایک چھوٹی برائی کو مٹانے کے نتیجے میں ایک بڑی برائی سامنے نہ آجائے مثلا قوم کے اندر تفریق نہ پیدا ہو جائے آپس میں قتل و قتال کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے تو آپ نے برائی مٹانے کہ بجائے اس برائی کو وقتی طور پر برداشت کرتے ہوئے خاموش اور حکیمانہ اصلاح کا طریقہ اختیار کیا انقلابی تبدیلی کے بجائے تدریجی تبدیلی کے اصول پر عمل کیا ۔
اب مقصد مقدمہ بھی ملاحظہ فرمائیں وہ یہ کہ اس زمانے میں عرس منانا زمانے کا تقاضہ نہ تھا بلکہ زمانے کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اگر لوگ بغض صحابہ میں مبتلاء ہیں تو امت میں امن و امان قائم رکھتے ہوے تدریجی طور پر اصلاح کی جاتی اور وقتی طور پر فتنہ خفیف کو برداشت کیا جاتا لیکن نتیجہ کیا نکلا کہ فتنہ خفیف تو مٹا نہیں بلکہ اس سے بڑا فتنہ ظہور میں آیا۔
اور میں مان بھی لیتا ہوں کہ جماعت اہل سنت میں کچھ ناصبی کچھ رافضی کچھ خارجی چھپے ہوئے تھے تو عرس امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بے نقاب کیا اب میں ایک سوال کرتا ہوں کہ سانپ جب بل میں چھپا ہوا ہو تب امان ہے یا پھر اس کو عوام کے درمیان لا دیا جائے تب امان ہے؟؟ جب یہ خارجی، رافضی، ناصبی چپھے ہوئے تھے تو صحابہ پر کھلے عام دشنام دہی کا سلسلہ دراز نہ تھا لیکن اس عرس کی وجہ سے آج صحابہ کو کھلے عام گالیاں دی جا رہی ہیں اگرچہ آپ کی ذہنی سطح پر عرس معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مؤید صحابہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن زمینی سطح پر انتشار کا سبب بن گیا ہے جو کہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔صحابہ سے محبت کروانے کے ہزار طریقے ہیں تو ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا گیا جو تفرق فی الامت کا سبب بنا مزید برآں یہ کہ بغض صحاب کے شکار افراد کو بغض پر مزید جری بنا دیا۔
اب ایک سوال اور ہے کہ جب روافض، خوارج، ناصبی بے نقاب ہو گئے تو آپ نے کتنوں کو صراط مستقیم پر لایا صرف ایک کا نام بتائیے؟بلکہ وہ تو اور اپنے نظریے پر جری ہو گیے اور ذاتیات پر حملے شروع ہوگئے کیوں؟؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے دعوت کا غلط طریقہ اختیار کیا اپنی انا کی تسکین کے لیے آپ نے جبرا اپنی بات کو منوانا چاہا جو کہ فتنے کا سبب بن گیا اور دفاع صحابہ کے نام پر نفرت و انتشار کا بازار گرم کر دیا ۔
ایک بات اور ہے وہ یہ کہ آج داعی کی دعوت مدعوں قبول کیوں نہیں کر رہا ہے؟؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ داعی نتیجے سے بے خبر ہوکر صرف یہ دیکھ رہا ہے کہ میرا ایسا کرنا از روئے شرع غلط ہے یا صحیح ؟؟
عرس معاویہ رضی اللہ عنہ اس کی نمایا مثال ہے۔
حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ داعی یہ دیکھے کہ میرا ایسا کرنا فتنے کا سبب تو نہیں اور امر مستحب سے امت میں فتنہ برپا ہو رہا ہے تو نعرہ تکبیر بھی فتنہ ہے اسی فتنے کی ڈر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی عمارت کو اساس ابراہیم پر نہیں بنوایا بلکہ اساس مشرکین ہی پر چھوڑ دیا یہ کہہ کر کہ کہیں فتنہ نہ جنم لے لے اور آپ نے اھون النتیجتین پر عمل کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح غلط کو نہ دیکھا بلکہ آپنے یہ دیکھا کہ ایسا کرنا کہیں فتنے کو وجود نہ دے دے حالانکہ صحیح تو یہ تھا کہ کعبہ کو اساس ابراہیم پر تعمیر جائے
اب عرس معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی تناظر میں دیکھیے کہ برائی کا اس زمانے میں ظاہر ہونا یہ بڑا فتنہ ہے یا پھر ظاہر نہ ہونا بڑا فتنہ ہے؟؟ اس سوال پر ہر عقل مند کہے گا کہ برائی پوشیدہ ہو تو ہی بہتر ہے کیوں کہ برائی کا ظاہر نہ ہونا اھون النتیجتین ہے ۔
کیونکہ خوارج، روافض ،ناصبی کا ظاہر نہ ہونا یہ بڑا فتنہ نہ تھا بلکہ ظاہر ہونا بڑا فتنہ ہے کہ اب وہ ظاہر ہو گیے تو اب وہ برملہ اپنے نظریات کا اشتہار کررہے ہیں اب ان کے اندر کسی کا خوف نہ رہا اور آپ چند سطری تحریر لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے وہ تو اس قدر جری ہوچکے ہیں کہ آپ کے سینے پر چڑھ کر اپنے نظریے کا اعلان کریں گے جیسا کہ سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے اگر واقعی آپ کے اندر حب صحابہ ہے تو بحث و مباحثہ کا سلسلہ بند کرکے فضیلت صحابہ کو اس قدر عام کیجیے کہ خارجی، رافضی، ناصبی سب دم توڑ دیں ورنہ ان چند سطری تحریروں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ آپ کا یہ رویہ ہی صحابہ کو گالی دینے کا سبب بن رہا ہے۔
آخری بات ۔
ان لوگوں کے لیے جو حضرت معاویہ کو صحابی سمجھتے ہیں
یقینا صحابہ کرام آپس میں ایک دوسرے سے افضل ہیں لیکن یہ مقام تفضیل اللہ کے رسول کی طرف نظر کرتے ہوئے ہے نہ بندوں کی طرف نظر کرتے ہوے
جس طرح کہ انبیاء کرام ایک دوسرے سے افضل ہیں لیکن وہ اللہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے نہ کہ بندوں کی طرف نسبت کرتے ہوئے ۔ابن کثیر کی عبارت ہے کہ"لیسی مقام التفضیل الیکم و انماھو الی اللہ عزوجل"
اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے انبیاء یا صحابہ کے معاملے میں افضل اور غیر افضل کی بحث کو چھیڑا ان کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے ذہن میں یہ حقیقت زندہ شعور کے طور پر باقی نہ رہی کہ تمام انبیاء یا صحابہ یکساں طور پر مطلوب ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایسے لوگوں نے شعوری اور غیر شعوری طور پر صرف ایک کو ماڈل سمجھ لیا اور معاملہ یہاں تک بڑھا کہ دیگر لوگوں کے تئیں منفی سوچ پیدا ہو گئی ۔
صحابہ ہونے کی حیثیت سے سب ہمارے لئے ایک ہیں کون تقوی و پرہیز گاری یا مراتب میں کس مقام پر ہے وہ اللہ و رسول کا معاملہ ہے وہی بہتر جانتے ہیں ۔اسی لیے مشاجرات صحابہ پر سقوط ہی بہتر ہے
اب اگر آپ امیر معاویہ کو صحابی مانتے ہیں تو خدا را دشنام طرازی کا سلسلہ بند کیجیے۔
اگر صحابی نہیں مانتے ہیں تو ہر چہ خواہی کن ۔
اعلی حضرت کا موقف بہت ہی معتدل موقف ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو محبین صحابہ بنا اور بغض صحابہ سے دور رکھ اور حب صحابہ پر مرتے دم تک قائم رکھ۔
عرس معاویہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کو بغض معاویہ پر محمول نہ کیا جائے ۔
#احمد_صفی
سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داری
تحریر ۔احمد صفی
یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، سوشل میڈیا کا مقصد اس کائنات میں بسنے والے تمام انسانوں کو ایک دوسر ے سے قریب لانا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے جڑ سکیں، آپس میں خوشیاں بانٹ سکیں، ایک دوسرے کے افکار و خیالات سے استفادہ کرسکیں، ایک صحتمند ڈیبیٹ کا ماحول پیدا ہو تاکہ انسانی صلاحیتوں میں نکھار آئے، اچھے خیالات ideas سامنے آئیں اور پھر ہم خیال افراد کی ایک لڑی بنے جو ایک دوسری کے مددگار بن سکیں،
اسی لیے اکثر سوشل میڈیا سائٹس میں لائک کا آپشن تو ہوتا ہے لیکن انلائک کا نہیں ہوتا کیوں؟؟ وہ اس لیے کہ محبت عام اور نفرت کا خاتمہ ہو. اور مزید بلاک کا بھی آپشن ہوتا ہے وہ کس لیے؟؟ صرف اس لیے کہ اگر کوئی نفرت پھیلا رہا ہے ہتک آمیز پوسٹ لگا رہا ہے تو آپ بلاک کا آپشن استعمال کرکے اس کے منفی رویہ سے بچ سکتے ہیں ۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج اسلام پسند طبقہ کی اکثریت سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ تر اپنے نظریاتی مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے کر رہی ہے ۔
اکثر جب کسی کو کسی کے نظریہ سے اتفاق نہیں ہوتا تو اسے ٹرول troll کیا جاتا ہے، انتہائی سخت اور سستے تبصرے کئے جاتے ہیں ، نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ، گالیاں دی جاتی ہیں، غیر تو غیر اپنوں کی بھی دل آزاری کی جاتی ہے جو کہ سوشل میڈیا کے مقاصد کے بالکل برعکس ہے ، حالانکہ اگر شوشل میڈیا پر کسی کو کسی کی پوسٹ پسند نہ آئے تو اسے بآسانی نظر انداز کرکے آگے بڑھا جاسکتا ہے یا اگر کسی نظریہ سے اتفاق نہ ہو تو وقار کے ساتھ اسکا علمی انداز میں جواب دیا جاسکتا ہے یا اپنے وال پر اسکی تردید کی جاسکتی ہے ہمیں خیال رہنا چاہئے کہ سوشل میڈیا دل آزاری کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ رشتوں کو بنانے، ایک دوسرے کے افکار ونظریات سے فائدہ اٹھانے، مثبت اقدار کو بڑھاوا دینے، معلومات کو نشر کرنے اور صحتمند گفتگو کیلئے ہے تاکہ دنیا امن وسکون کا گہوارہ بن سکے۔
لیکن یہاں پر معاملہ بلکل بر عکس ہو چکا ہے کہ اس امر میں اس قدر غلو کر چکے ہیں کہ فیک آئڈیز کا استعمال کرکے نفرت کی بیج بو رہے ہیں ۔
اعلی شخصیات کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر قابل اعتراض پوسٹیں لگا رہے ہیں جو کہ افتراق وانتشار کا سبب بنتا نظر آرہا ہے۔
شکیلہ شیخ جو کہ فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کی رکن ہیں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں فیس بک ویکیپیڈیا کے حوالے سے ایک بات لکھی تھی کہ ہند وپاک سے 2017میں ایف آئی اے سائبر کرائم کو 30000سے زائد فیس بک آئڈیز کی شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 50% شکایات ان اکانٹس کی تھیں جن کا استعمال مذہبی لڑائی کے لیے کیا جاتا ہے ۔
اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی کتنے پیچھے ہیں جب کہ اغیار نے اس کا استعمال نفرت و انتشار پھیلانے کے بجائے اپنے مذہب و نظریات کی ترویج کے لئے کر رہے اور وہ اپنے اس مشن کامیاب ہو رہے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی دنیا ایک مصنوعی دنیا ہے لہذا اسے اسی حد تک رکھنا چاہئے جس سے ہماری حقیقی زندگی اور رشتے متاثر نا ہوں۔
اس کو ہمیں اسلام اور اپنی قوم کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔
اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کہ فیس بک پر بحث و مباحثہ جیسی فضولیات میں ایسے ایسے افراد شامل ہیں جو کہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں جو کہ بہت بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہیں ۔لیکن وہ اپنے وقت کو چند سطری تحریروں اور اس پر کمنٹ کے پیچھے ضائع کر رہے ہیں۔
ایک بات یاد رکھیے فیس بک اخبار کے مانند ہے یہاں پر لکھی تحریروں کی اہمیت صرف ایک دن کی ہے پھر ان کا ہونا نا ہونے کی طرح ہے ۔
اور ایک قول بہت مشہور ہے کہ کاتب ہمیشہ زندہ رہتا ہے لیکن وہ سوشل میڈیا والا نہیں بلکہ کتابوں والا زندہ رہتا ہے ۔
اس لیے ا س ناچیز کی گزارش ہے کہ ہم پروجیکٹ کے طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ اس سے آنے والی نسل کو فائدہ ہو ورنہ سوشل میڈیا پر تحریریں آئیں گی جائیں گی فائدہ کچھ بھی نہ ہوگا ۔
عزیز بیٹی ملالہ
عزیز بیٹی ملالہ سلامت رہو امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہ...

-
طلبہ مدارس بھی تھوڑا سا گلہ سن لیں تحریر ۔احمد صفی میں جانتا ہوں کہ میری اس تحریر سے طلبہ مدارس کو تکلیف ہوگی لیکن میں پیشگی معزرت چاہتا ہ...
-
اسلامی ریاست جب مکمل طور سے وجود میں آگئی اور اسلام پہلے کی بنسبت کافی تیزی سے پھیلنے لگا یہاں تک کہ بڑے بڑے علاقے اور ملکوں پر اسلام کا پر...
-
تحریر ۔احمد صفی اسلام کی پوری تاریخ میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس میں کسی نے مسلک اہل سنت کو کسی ایک ذات کی طرف منسوب کیا ہو۔ ت...