Thursday, 21 June 2018

داعی امن کا پیامبر ہوتا ہے۔

تحریر۔ احمد صفی

داعی کی ذات سے امن قائم ہوتا ہے نہ کہ فتنہ۔۔
اس وقت سوشل میڈیا پر حضرت علی و حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما موضوع بحث ہیں۔اور مذکورہ موضوع کے متعلق تحریروں ک انبار لگ چکا ہے لیکن نتیجہ ابھی سوائے اس کے کچھ نہیں آیا کہ کوئی  کسی کے نزدیک ناصبی بنا تو کوئی کسی کے نزدیک رافضی تو کسی کے نزدیک خارجی۔

اولا ایک بات عرض کردوں کہ اس موضوع کے متعلق اعلی حضرت علیہ رحمہ کی تحقیق انیق ہی احسن موقف ہے کہ فرق مراتب بے شمار
حق بدست حیدر کرار
مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار 
اور اس تحقیق کے علاوہ دیگر نظریے  متعین کرنا الفاظ کی بازی گری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔
اور اب اس موضوع کو اٹھانا امت کو فتنے میں ڈالنا ہے ۔
ثانیا یہ کہ ہاں حال ہی میں یہ بحث جہاں سے ایک نیا رخ پکڑی ہے اس کے نکتہ آغاز پر گفتگو کی جا سکتی ہے کہ امیر دعوت اسلامی کا عرس حضرت امیر معاویہ منانا غلط ہے یا صحیح؟؟ اور اس بات پر کسی شخص کو اتفاق بھی ہو سکتا ہے اور اختلاف بھی  اور یہ دونوں فریق کے لئے روا نہیں کہ ایک دوسرے پر دشنام طرازی کریں کیوں کہ یہ ایک امر اضافی ہے جس پر کوئی دلیل قطعی نہیں ۔
لیکن میں یہاں پر ایک بات ذکر کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ داعی جو ہوتا وہ مصلح ہوتا اس کی ذات سے معاشرے میں امن و سلامتی قائم ہونی چاہیے نہ کہ نفرت و انتشار اور داعی کو اپنا ہر قدم قرآن و سنت کے مطابق اٹھانا چاہیے اور اپنی دعوت کے کام کو حالات کے تقاضے کے مطابق انجام دینا چاہیے تاکہ اس کی دعوت فتنے کا سبب نہ بنے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنے زمانے کے حالات کے مطابق اپنے مشن کو عام کیا تھا۔ مثلا(1)حضرت موسی علیہ السلام نے ایک زوال یافتہ امت کے درمیان اصلاحی کام کیا اور اپنے عمل کا آغاز غیروں کے خلاف جہاد کرنے کے بجائے بلکہ اپنی امت کو چالیس سال تک تربیت دی کیوں کہ اس وقت حالات ہی ایسے تھے۔
(2)حضرت نوح علیہ السلام نے ایک سرکش قوم کے درمیان اپنی دعوت کا آغاز کیا اور فورا ہی "اللہم دمر دیارھم"جیسی بد دعائیں نہیں دیں بلکہ اس کے لئے ایک لمبی مدت کا انتظار کیا ۔
(3)حضرت عیسی علیہ السلام ایسی قوم کی طرف بھیجے گئے جو ایمانی اور اخلاقی زوال کا شکار تھی تو آپ نے ان کو فضائل کی داستانیں نہیں سنائیں بلکہ وعید و تنبیہ کی زبان میں قوم کو جھنجھوڑا۔
(4)اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو غیر مسلم حکمران نے اقتدار میں شرکت کی پیش کش کی تھی تو آپ نے اصلاح کا کام انجام دینے کے لیے مفروضہ اندیش نتائج کی پرواہ کیے بغیر شریک اقتدار ہو گیے تھے ۔
(5) اتنے نبیوں کے اسلوب دعوت کا ذکر میں نے اسی پاچویں نکتے پر توجہ دلانے کے لئے باندھا تھا سمجھنے کی کوشش کریں وہ یہ حضرت ہارون علیہ السلام جو کہ موسی علیہ السلام کی جگہ قوم کی قیادت کررہے تھے تو آپ کی قوم مرتد ہو  کر بجھڑے کی پوجا شروع کر دی تھی تو آپ نے ایسا نہیں کیا تھا کہ عواقب کی پرواہ کیے بغیر برائی کو مٹانے کے نام پر شور تحریک شروع کر دیا تھا بلکہ آپ نے یہ دیکھا کہ کہیں میرا برائی کو مٹانے والا قدم ایک فتنہ نہ بن جائے اور ایک چھوٹی برائی کو مٹانے کے نتیجے میں ایک بڑی برائی سامنے نہ آجائے مثلا قوم کے اندر تفریق نہ پیدا ہو جائے آپس میں قتل و قتال کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے تو آپ نے برائی مٹانے کہ بجائے اس برائی کو وقتی طور پر برداشت کرتے ہوئے خاموش اور حکیمانہ اصلاح کا طریقہ اختیار کیا انقلابی تبدیلی کے بجائے تدریجی تبدیلی کے اصول پر عمل کیا ۔
اب مقصد مقدمہ بھی ملاحظہ فرمائیں وہ یہ کہ اس زمانے میں عرس منانا زمانے کا تقاضہ نہ تھا بلکہ زمانے کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اگر لوگ بغض صحابہ میں مبتلاء ہیں تو امت میں امن و امان قائم رکھتے ہوے تدریجی طور  پر اصلاح کی جاتی اور وقتی طور پر فتنہ خفیف کو برداشت کیا جاتا لیکن نتیجہ کیا نکلا کہ فتنہ خفیف تو مٹا نہیں بلکہ اس سے بڑا فتنہ ظہور میں آیا۔
اور میں مان بھی لیتا ہوں کہ جماعت اہل سنت میں کچھ ناصبی کچھ رافضی کچھ خارجی چھپے ہوئے تھے تو عرس امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بے نقاب کیا اب میں ایک سوال کرتا ہوں کہ سانپ جب بل میں چھپا ہوا ہو تب امان ہے یا پھر اس کو عوام کے درمیان لا دیا جائے تب امان ہے؟؟ جب یہ خارجی،  رافضی، ناصبی چپھے ہوئے تھے تو صحابہ پر کھلے عام دشنام دہی کا سلسلہ دراز نہ تھا لیکن  اس عرس کی وجہ سے آج صحابہ کو کھلے عام گالیاں دی جا رہی ہیں اگرچہ آپ کی ذہنی سطح پر عرس معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مؤید صحابہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن زمینی سطح پر انتشار کا سبب بن گیا ہے جو کہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔صحابہ سے محبت کروانے کے ہزار طریقے ہیں تو ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا گیا جو تفرق فی الامت کا سبب بنا  مزید برآں یہ کہ بغض صحاب کے شکار افراد کو بغض پر مزید جری بنا دیا۔
 اب ایک سوال اور ہے کہ جب روافض، خوارج، ناصبی بے نقاب ہو گئے تو آپ نے کتنوں کو صراط مستقیم پر لایا صرف ایک کا نام بتائیے؟بلکہ وہ تو اور اپنے نظریے پر جری ہو گیے اور ذاتیات پر حملے شروع ہوگئے کیوں؟؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے دعوت کا غلط طریقہ اختیار کیا اپنی انا کی تسکین کے لیے آپ نے جبرا اپنی بات کو منوانا چاہا جو کہ فتنے کا سبب بن گیا اور دفاع صحابہ کے نام پر نفرت و انتشار کا بازار گرم کر دیا ۔
ایک بات اور ہے وہ یہ کہ آج داعی کی دعوت مدعوں قبول کیوں نہیں کر رہا ہے؟؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ داعی نتیجے سے بے خبر ہوکر صرف یہ دیکھ رہا ہے کہ میرا ایسا کرنا از روئے شرع غلط ہے یا صحیح ؟؟
عرس معاویہ رضی اللہ عنہ اس کی نمایا مثال ہے۔
حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ داعی یہ دیکھے کہ میرا ایسا کرنا فتنے کا سبب تو نہیں اور امر مستحب سے امت میں فتنہ برپا ہو رہا ہے تو نعرہ تکبیر بھی فتنہ ہے اسی فتنے کی ڈر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی عمارت کو اساس ابراہیم پر نہیں بنوایا بلکہ اساس مشرکین ہی پر چھوڑ دیا یہ کہہ کر کہ کہیں فتنہ نہ جنم لے لے اور آپ نے اھون النتیجتین پر عمل کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح غلط کو نہ دیکھا بلکہ آپنے یہ دیکھا کہ ایسا کرنا کہیں فتنے کو وجود نہ دے دے حالانکہ صحیح تو یہ تھا کہ کعبہ کو اساس ابراہیم پر تعمیر جائے
 اب عرس معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی تناظر میں دیکھیے کہ برائی کا اس زمانے میں ظاہر ہونا یہ بڑا فتنہ ہے یا پھر ظاہر نہ ہونا بڑا فتنہ ہے؟؟  اس سوال پر ہر عقل مند کہے گا کہ برائی پوشیدہ ہو تو ہی بہتر ہے کیوں کہ برائی کا ظاہر نہ ہونا اھون النتیجتین ہے ۔
 کیونکہ خوارج، روافض ،ناصبی کا ظاہر نہ ہونا یہ بڑا فتنہ نہ تھا بلکہ ظاہر ہونا بڑا فتنہ ہے کہ اب وہ ظاہر ہو گیے تو اب وہ برملہ اپنے نظریات کا اشتہار کررہے ہیں اب ان کے اندر کسی کا خوف نہ رہا اور آپ چند سطری تحریر لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے وہ تو اس قدر جری ہوچکے ہیں کہ آپ کے سینے پر چڑھ کر اپنے نظریے کا اعلان کریں گے جیسا کہ سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے اگر واقعی آپ کے اندر حب صحابہ ہے تو بحث و مباحثہ کا سلسلہ بند کرکے فضیلت صحابہ کو اس قدر عام کیجیے کہ خارجی، رافضی، ناصبی سب دم توڑ دیں ورنہ ان چند سطری تحریروں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ آپ کا یہ رویہ ہی صحابہ کو گالی دینے کا سبب بن رہا ہے۔
 آخری بات ۔
 ان لوگوں کے لیے جو حضرت معاویہ کو صحابی سمجھتے ہیں
یقینا صحابہ کرام آپس میں ایک دوسرے سے افضل ہیں لیکن یہ مقام تفضیل اللہ کے رسول کی طرف نظر کرتے ہوئے ہے نہ بندوں کی طرف نظر کرتے ہوے 
جس طرح کہ انبیاء کرام ایک دوسرے سے افضل ہیں لیکن وہ اللہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے نہ کہ بندوں کی طرف نسبت کرتے ہوئے ۔ابن کثیر کی عبارت ہے کہ"لیسی مقام التفضیل الیکم و انماھو الی اللہ عزوجل"
 اس کی  وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے انبیاء یا صحابہ کے معاملے میں افضل اور غیر افضل کی بحث کو چھیڑا ان کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے ذہن میں یہ حقیقت زندہ شعور کے طور پر باقی نہ رہی کہ تمام انبیاء یا صحابہ یکساں طور پر مطلوب ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایسے لوگوں نے شعوری اور غیر شعوری طور پر صرف ایک کو ماڈل سمجھ لیا اور معاملہ یہاں تک بڑھا کہ دیگر لوگوں کے تئیں منفی سوچ پیدا ہو گئی ۔
 صحابہ ہونے کی حیثیت سے سب ہمارے لئے ایک ہیں کون تقوی و پرہیز گاری  یا مراتب میں کس مقام پر ہے وہ اللہ و رسول کا معاملہ ہے وہی بہتر جانتے ہیں ۔اسی لیے مشاجرات صحابہ پر سقوط ہی بہتر ہے

 اب اگر آپ امیر معاویہ کو صحابی مانتے ہیں تو خدا را دشنام طرازی کا سلسلہ بند کیجیے۔
  اگر صحابی نہیں مانتے ہیں تو ہر چہ خواہی کن ۔
 

اعلی حضرت کا موقف بہت ہی معتدل موقف ہے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو محبین صحابہ بنا اور بغض صحابہ سے دور رکھ اور حب صحابہ پر مرتے دم تک قائم رکھ۔

عرس معاویہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کو بغض معاویہ پر محمول نہ کیا جائے ۔

#احمد_صفی

No comments:

Post a Comment

عزیز بیٹی ملالہ

 عزیز بیٹی ملالہ سلامت رہو امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی  بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہ...