Thursday, 21 June 2018

سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داری

تحریر ۔احمد صفی

یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، سوشل میڈیا کا مقصد اس کائنات میں بسنے والے تمام انسانوں کو ایک دوسر ے سے قریب لانا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے جڑ سکیں، آپس میں خوشیاں بانٹ سکیں، ایک دوسرے کے افکار و خیالات سے استفادہ کرسکیں، ایک صحتمند ڈیبیٹ کا ماحول پیدا ہو تاکہ انسانی صلاحیتوں میں نکھار آئے، اچھے خیالات ideas  سامنے آئیں اور پھر ہم خیال افراد کی ایک لڑی بنے جو ایک دوسری کے مددگار بن سکیں،
اسی لیے اکثر سوشل میڈیا سائٹس میں لائک کا آپشن تو ہوتا ہے لیکن انلائک کا نہیں ہوتا کیوں؟؟ وہ اس لیے کہ محبت عام اور نفرت کا خاتمہ ہو. اور مزید بلاک کا بھی آپشن ہوتا ہے وہ کس لیے؟؟ صرف اس لیے کہ اگر کوئی نفرت پھیلا رہا ہے ہتک آمیز پوسٹ لگا رہا ہے تو آپ بلاک کا آپشن استعمال کرکے اس کے منفی رویہ سے بچ سکتے ہیں ۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج  اسلام پسند طبقہ کی اکثریت سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ تر اپنے نظریاتی مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے کر رہی ہے ۔
اکثر  جب کسی کو کسی کے نظریہ سے اتفاق نہیں ہوتا تو اسے ٹرول troll کیا جاتا ہے،  انتہائی سخت اور سستے تبصرے کئے جاتے ہیں ، نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ، گالیاں دی جاتی ہیں، غیر تو غیر اپنوں کی بھی دل آزاری کی جاتی ہے جو کہ  سوشل میڈیا کے مقاصد کے بالکل برعکس ہے ، حالانکہ اگر شوشل میڈیا پر کسی کو  کسی کی پوسٹ پسند نہ آئے تو اسے بآسانی نظر انداز کرکے آگے بڑھا جاسکتا ہے یا اگر کسی نظریہ سے اتفاق نہ ہو تو وقار کے ساتھ اسکا علمی انداز میں جواب دیا جاسکتا ہے یا اپنے وال پر اسکی تردید کی جاسکتی ہے ہمیں خیال رہنا چاہئے کہ سوشل میڈیا دل آزاری کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ رشتوں کو بنانے، ایک دوسرے کے افکار ونظریات سے فائدہ اٹھانے، مثبت اقدار کو بڑھاوا دینے، معلومات کو نشر کرنے اور صحتمند گفتگو کیلئے ہے تاکہ دنیا امن وسکون کا گہوارہ بن سکے۔
لیکن یہاں پر معاملہ بلکل بر عکس ہو چکا ہے کہ اس امر میں اس قدر غلو کر چکے ہیں کہ فیک آئڈیز کا استعمال کرکے نفرت کی بیج بو رہے ہیں ۔
اعلی شخصیات کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر قابل اعتراض پوسٹیں لگا رہے ہیں جو کہ افتراق وانتشار کا سبب بنتا نظر آرہا ہے۔
شکیلہ شیخ جو کہ فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کی رکن ہیں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں فیس بک ویکیپیڈیا کے حوالے سے ایک بات لکھی تھی کہ ہند وپاک سے 2017میں ایف آئی اے سائبر کرائم کو 30000سے زائد فیس بک آئڈیز کی شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 50% شکایات ان اکانٹس کی تھیں جن کا استعمال مذہبی لڑائی کے لیے کیا جاتا ہے ۔
اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی کتنے پیچھے ہیں جب کہ اغیار نے اس کا استعمال نفرت و انتشار پھیلانے کے بجائے اپنے مذہب و نظریات کی ترویج کے لئے کر رہے اور وہ اپنے اس مشن کامیاب ہو رہے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی دنیا ایک مصنوعی دنیا ہے لہذا اسے اسی حد تک رکھنا چاہئے جس سے ہماری حقیقی زندگی اور رشتے متاثر نا ہوں۔
اس کو ہمیں اسلام اور اپنی قوم کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔
اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کہ فیس بک پر بحث و مباحثہ جیسی فضولیات میں ایسے ایسے افراد شامل ہیں جو کہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں جو کہ بہت بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہیں ۔لیکن وہ اپنے وقت کو چند سطری تحریروں اور اس پر کمنٹ کے پیچھے ضائع کر رہے ہیں۔
ایک بات یاد رکھیے فیس بک اخبار کے مانند ہے یہاں پر لکھی تحریروں کی اہمیت صرف ایک دن کی ہے پھر ان کا ہونا نا ہونے کی طرح ہے ۔
اور ایک قول بہت مشہور ہے کہ کاتب ہمیشہ زندہ رہتا ہے لیکن وہ سوشل میڈیا والا نہیں بلکہ کتابوں والا زندہ رہتا ہے ۔
اس لیے ا س ناچیز کی گزارش ہے کہ ہم پروجیکٹ کے طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ اس سے آنے والی نسل کو فائدہ ہو ورنہ سوشل میڈیا پر تحریریں آئیں گی جائیں گی فائدہ کچھ بھی نہ ہوگا ۔

No comments:

Post a Comment

عزیز بیٹی ملالہ

 عزیز بیٹی ملالہ سلامت رہو امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی  بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہ...