طلبہ مدارس بھی تھوڑا سا گلہ سن لیں
تحریر ۔احمد صفی
میں جانتا ہوں کہ میری اس تحریر سے طلبہ مدارس کو تکلیف ہوگی لیکن میں پیشگی معزرت چاہتا ہوں اور مذکورہ خامیوں سے میں بھی مستثنیٰ نہیں ۔
اس بزم سے مقصود ہے اصلاح مفاسد
نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا۔
آغاز علامہ اقبالؒ کے اس شعر سے
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے مخاطب طالب علم ہیں ۔کیونکہ طالب علم کا تعلیمی دور اس کے مستقبل والے زندگی پر گہرے نقوش مرتب کرتا ہے۔زمانہ طالب علمی میں ان کی تربیت کا عمل جس قدر شفاف اور کارآمد ہوگا اسی قدر قوم کو ان کا تابناک مستقبل دیکھنے کو ملے گا ۔
آزادی ہند کے پیچھے صداقت، عدالت شجاعت کے لباس سے مزین جو افراد تھے وہ مدرسے کے طالب علم ہی تھے۔
اور دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے انقلاب آئے خواہ وہ مادی انقلاب ہوں یا پھر تعلیمی وہ انہیں کے بدولت آئے۔
اے مدرسے کی ٹوٹی پھوٹی چٹائی پر بیٹھ کر علم حاصل کرنے والے اٹھ اور دنیا والوں کو بتا دے کہ کل بھی ہم اقوام عالم کے امام تھے اور آج بھی اپنے علم کی بدولت دنیا والوں کو اپنی تقلید پر مجبور کر سکتے ہیں پر اس کے لیے ہمیں اقبال کا شاہین بننا ہوگا ہمیں اپنی خامیوں کو دور کرکے خوبیوں میں بدلنا ہوگا، قربانیاں دینی ہوں گی ۔
مدرسے میں میں نے نو سال گزارے اور امسال دسواں ہے اور میں خود ایک طالب علم ہوں اور میں نے طلبہ کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اس بات کو میں مانتا ہوں کہ جس قدر خوبیاں اور اچھائیاں طلبہ مدارس کے اندر ہوتی ہیں وہ عصری اداروں کے پروردہ میں کم نظر آتی ہیں ۔
ان خوبیوں سے قطع نظر مجھے ان کی خامیوں پر اور طریق اصلاح پر بات کرنی ہے ۔
(1) اکثر طلبہ مدارس درسیات پر مکمل زور دیتے ہیں اخبارات، جرنلس میگزین، اور دیگر سوشلسٹ علمی ذرائع سے بہت دور ہوتے ہیں ۔
حالانکہ درسیات میں محنت کرنا غلط نہیں ہے بلکہ ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی استعمال کرنا چاہیے، تفریحی پروگرام غیر درسی تعلیمات و تحریکات میں بھی حصہ لینا چاہیے کیونکہ ان چیزوں کے ذریعے طالب علم کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔
(2)اکثر طلبہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ زیادہ رات تک پڑھنا کامیاب طالب علم کی علامت ہے یہ سوچ بلکل غلط ہے کیونکہ فزیکلی اعتبار سے آدھی رات کے بعد مائنڈ اتنی سرعت سے کام نہیں کرتا جتنی سرعت کے ساتھ باقی ٹائم میں کرتا ہے ۔اور دیر رات تک جاگنا ذہن اور حفظان صحت دونوں کے لیے مضر ہے ۔
(3)طلبہ مدارس کے اندر ایک اور کمی ہوتی ہے وہ ہے خود اعتمادی کا فقدان جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنے بڑوں سے بات کرنے میں گھبرانا،اسٹیج پر بولنے سے ڈرنا، استاد سے سوال کرتے وقت زبان کا کپکپانا وغیرہ وغیرہ ۔جس طالب علم کے اندر خود اعتمادی نہ ہو وہ ایسے امور کو انجام دے جس سے اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو مثلا کلاس میں سب سے آگے بیٹھنا،تحریر و تقریر کے مشقی پروگراموں میں حصہ لینا، بڑوں سے تبادلہء خیال کرنا وغیرہ وغیرہ۔ورنہ خود اعتمادی کا نہ ہونا کامیابی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
(4)طلبہ مدارس کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ وہ اپنے تعلیمی سفر کو بغیر کسی نصب العین کے طے کر رہے ہوتے ہیں کہ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد ان کے سامنے سوائے اندھیرے کے کچھ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اب کدھر جائیں؟ اس لیے ہمیں اپنا نصب العین متعین کرنا ہوگا اونچے خواب دیکھنے ہوں گے، بلند حوصلگی اور خود اعتمادی کا ذخیرہ پیدا کرنا ہوگا جو ہمیں بلند سے بلند پرواز پر آمادہ کر سکیں ۔
ایک بات اور عرض کروں کہ طلبہ مدارس نیورسٹی میں پڑھنے والوں سے کہیں زیادہ محنت کرتے ہیں اس کے باوجود طلبہ مدارس ان کی بنسبت کامیاب نہیں ہو پاتے کیوں؟ اس کی ایک بڑی وجہ نصب العین کا متعین نہ ہونا ہے ۔
(5)اکثر طلبہ جو کہ تعلیم میں تیز ہوتے ہیں ان کے دل میں کمزور طلبہ کے تئیں ہمدردی نہیں ہوتی مثلا ان سے گفتگو کرتے وقت سخت آواز میں بات کرنا، کسی مسئلے کو دو تین مرتبہ استفسار کر لینے پر غصہ ہو جانا اور پڑھانے سے انکار کر دینا وغیرہ وغیرہ اور یاد رکھیے یہ ایک اچھے طالب علم کی نشانی نہیں ہے ۔
اچھا طالب علم وہی ہوتا ہے جو اپنی جماعت کے کمزور بچوں کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے اور اخلاق و محبت،مفاہمت اور تال میل کے ساتھ رہنمائی بھی کرتا ہے اور ان کو اپنے ساتھ لیکر آگے بڑھتا ہے۔
(6)ایک باریک غلطی جو طلبہ کرتے ہیں وہ یہ کہ کتابوں کا مطالعہ کرتے وقت وہ اس بات پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ کتاب کتنی جلد ختم ہو جائے کہ ہم نے ایک سال میں کتنی کتابیں ختم کی ہیں ۔
لیکن جب اس کتاب کے بارے میں یا پھر اس کتاب کے کسی مسئلہ کے متعلق سوال کر لیا جاتا ہے تو عدم معرفت کا اظہار کرتے ہیں ۔
حالانکہ مطالعہ کرنے کا یہ طریقہ بلکل غلط ہے بلکہ مطالعہ اس طور پر کیا جائے کہ اگر اس کو اختصارا بیان کرنا یا لکھنا پڑ جائے تو بآسانی بیان اور لکھ سکیں ۔ورنہ فقط کتابوں کی تعداد بڑھانے سے فائدہ کچھ بھی ہونے والا نہیں سوائے تضیع اوقات کے۔
(7)95%طلبہ اس وقت اختلافی مسائل، اکابر کی اختلافی ترشیحات،مختلف فیہ شخصیات کے دفاع و رد کرنے پر بحث و مباحثہ کرنے سے بے حد دل چسپی لے رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مناظراتی روش پر طلبہ کی فکر پروان چڑھ رہی ہے ۔جماعت اختلاف کی اماجگاہ بنتی نظر آرہی ہے ،درسیاتی کتب کو چھوڑ کر اپنے نظریات کی تائید پر کتابیں چھانی جا رہی ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ جن مدارس کا قیام دعوت و تبلیغ کے لیے ہوا تھا اب انہیں مدارس سے داعی کم مناظر زیادہ نکل رہے ہیں۔ہمیں ان چیزوں کو اپنے لیے مضر سمجھنا چاہیے اور ہمیں زیادہ تر اپنی توجہ کو ایسی چیزوں کی طرف مبذول رکھنی چاہیے جس سے ہماری شخصیت میں نکھار پیدا ہو، ہمیں کامیاب بنانے میں معاون ہوں۔
ایک شعر ملاحظہ فرمائیں
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اپنی مٹی پر تو چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پر چلوگے تو پھسل جاؤگے.
No comments:
Post a Comment