تحریر ۔احمد صفی
اسلام کی پوری تاریخ میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس میں کسی نے مسلک اہل سنت کو کسی ایک ذات کی طرف منسوب کیا ہو۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب جب لوگوں نے عقائد اہل سنت سے انحراف کیا تو ہمارے اسلاف نے کسی بھی شخص کو مابہ الامتیاز کا درجہ نہیں دیا بلکہ ان کا رد بلیغ کیا اور کسی کو معتزلی کہا تو کسی کو خوارج وغیرہ کہا اور ان کو اہل سنت والجماعت سے ہمیشہ خارج مانا۔
اور مجدد دین و ملت نے جن عقائد کی ترویج اشاعت کی وہ سواد اعظم کے عقائد تھے ۔
اور آج مسلک اعلٰی حضرت کہنے پر اس قدر زور دیا جارہا جس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کے جواز پر نقلی و عقلی دلائل کا انبار موجود ہیں ۔
حالانکہ ابھی اس کے جواز پر نقلی دلائل تو نہیں ملے لیکن کچھ عقلی دلیلیں ہیں اور وہ بھی اعتراض کی زد میں ہیں ۔
مثلا پہلی دلیل ۔یہ ہے کہ مسلک اعلی حضرت اس لیے کہتے ہیں کہ آج کچھ فرقہ باطلہ نے خود کو اہل سنت والجماعت سے موسوم کرنا شروع کردیا ہے اس لیے خود کو ان سے ممتاز کرنے کے لیے مسلک اعلی حضرت کا استعمال کرتے ہیں ۔
اس دلیل کا جواب ایک سوال ہے وہ یہ کہ اگر کوئی شخص آپ کے گھر میں رہنے کے لیے بضد ہو جائے اور دعوی کرنے لگے کہ یہ میرا گھر ہے: تو کیا آپ اپنا گھر خالی کرکے اس کو دے دیں گے اور دوسرا گھر رہنے کے لیے لے لیں گے؟ نہیں
لیکن ہم لوگوں نے ان کے لیے مزید راہ ہموار کردی کہ چلو آپ استعمال کر رہے ہیں تو کیجیے اور ہم خود کو آپ سے ممتاز کرنے کے لیے اس کا مرادف لفظ استعمال کر لیں گے.
اس بات سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ نے ان کو اہل سنت والجماعت سے مان لیا ہے تبھی تو خود کو ان سے ممتاز کرنے لیے دوسرا لفظ وضع کرلیا ہے۔
دوسری دلیل ترادف ہے ۔
یہاں پر استاد محترم مولانا ذیشان مصباحی صاحب کی بات نقل کرتا ہوں
((معاصر علماے اہل سنت میں بہت سے ایسے اہل علم ہیں جو مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کے مترادف سمجھتے ہیں، ان کے باطنی اخلاص اور ظاہری مصلحت سے قطع نظر یہ بات حقیقت کی سطح پر درست نہیں۔ مزید یہ کہ ایسے حضرات کو ہمیشہ ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت پے، کہ مبادا کبھی اعلی حضرت سے کسی مسئلے میں اختلاف کیا اور سنیت سے باہر گئے.
مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کا مترادف قرار دینے سے تو خود اعلی حضرت بھی سنی نہیں رہتے، کیوں کہ انہوں نے متعدد مسائل میں اپنے سے مختلف الخیال علما کو اہل سنت شمار کیا ہے.
بعض احباب اس پر یہ کہتے ہیں کہ ترادف کے قول پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے یہ غور کرنا چاہیے کہ قائلین ترادف کی ترادف سے مراد کیا ہے؟ کیوں کہ ترادف کے قائلین کے درمیان اس بات پر کافی اختلاف پایا جاتا ہے کہ آخر مسلک اعلی حضرت کس اعتبار سے مسلک اہل سنت کا مترادف ہے، عقائد و فروع دونوں میں مترادف ہے یا صرف عقائد میں؟ اس لیے ترادف کے انکار کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ یہ انکار کس جہت سے اور کن کے اعتبار سے ہے؟
اس پر عرض ہے کہ ترادف تو کلی یکسانیت کو ہی کہتے ہیں، جزوی یکسانیت ترادف نہیں کہی جاتی.
رہا یہ نکتہ کہ مسلک اعلی حضرت صرف عقائد کے معاملے میں مسلک اہل سنت کے مترادف ہے، تو یہ بات بھی قابل غور ہے، کیوں کہ عقائد کی تین سطحیں ہیں:
۱: عقائد دین، اس سطح پر تو تمام اہل قبلہ کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف ہے.
:۲ عقائد اہل سنت، اس سطح پر تو تمام سنی علما کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف ہے.
۳: عقائد فروع، اس سطح پر تو کسی بھی سنی عالم کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف نہیں.
بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقائد کی دوسری سطح کے لحاظ سے اگر کوئی مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کے مترادف کہے تو اس میں کیا خرابی ہے؟
جواباً عرض ہے کہ اس میں دو خرابیاں ہیں:
۱- یہ جزوی یکسانیت ہوئی، جس سے ترادف ثابت نہیں ہوتا.
۲- اور بالفرض اسے ترادف مان بھی لیجیے تو اس میں مسلک اعلی حضرت کی کیا تخصیص؟ اس سطح کے لحاظ سے تو ہر سنی عالم کا مسلک مسلک اہل سنت کا مترادف ہے۔))))
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب جب لوگوں نے عقائد اہل سنت سے انحراف کیا تو ہمارے اسلاف نے کسی بھی شخص کو مابہ الامتیاز کا درجہ نہیں دیا بلکہ ان کا رد بلیغ کیا اور کسی کو معتزلی کہا تو کسی کو خوارج وغیرہ کہا اور ان کو اہل سنت والجماعت سے ہمیشہ خارج مانا۔
اور مجدد دین و ملت نے جن عقائد کی ترویج اشاعت کی وہ سواد اعظم کے عقائد تھے ۔
اور آج مسلک اعلٰی حضرت کہنے پر اس قدر زور دیا جارہا جس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کے جواز پر نقلی و عقلی دلائل کا انبار موجود ہیں ۔
حالانکہ ابھی اس کے جواز پر نقلی دلائل تو نہیں ملے لیکن کچھ عقلی دلیلیں ہیں اور وہ بھی اعتراض کی زد میں ہیں ۔
مثلا پہلی دلیل ۔یہ ہے کہ مسلک اعلی حضرت اس لیے کہتے ہیں کہ آج کچھ فرقہ باطلہ نے خود کو اہل سنت والجماعت سے موسوم کرنا شروع کردیا ہے اس لیے خود کو ان سے ممتاز کرنے کے لیے مسلک اعلی حضرت کا استعمال کرتے ہیں ۔
اس دلیل کا جواب ایک سوال ہے وہ یہ کہ اگر کوئی شخص آپ کے گھر میں رہنے کے لیے بضد ہو جائے اور دعوی کرنے لگے کہ یہ میرا گھر ہے: تو کیا آپ اپنا گھر خالی کرکے اس کو دے دیں گے اور دوسرا گھر رہنے کے لیے لے لیں گے؟ نہیں
لیکن ہم لوگوں نے ان کے لیے مزید راہ ہموار کردی کہ چلو آپ استعمال کر رہے ہیں تو کیجیے اور ہم خود کو آپ سے ممتاز کرنے کے لیے اس کا مرادف لفظ استعمال کر لیں گے.
اس بات سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ نے ان کو اہل سنت والجماعت سے مان لیا ہے تبھی تو خود کو ان سے ممتاز کرنے لیے دوسرا لفظ وضع کرلیا ہے۔
دوسری دلیل ترادف ہے ۔
یہاں پر استاد محترم مولانا ذیشان مصباحی صاحب کی بات نقل کرتا ہوں
((معاصر علماے اہل سنت میں بہت سے ایسے اہل علم ہیں جو مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کے مترادف سمجھتے ہیں، ان کے باطنی اخلاص اور ظاہری مصلحت سے قطع نظر یہ بات حقیقت کی سطح پر درست نہیں۔ مزید یہ کہ ایسے حضرات کو ہمیشہ ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت پے، کہ مبادا کبھی اعلی حضرت سے کسی مسئلے میں اختلاف کیا اور سنیت سے باہر گئے.
مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کا مترادف قرار دینے سے تو خود اعلی حضرت بھی سنی نہیں رہتے، کیوں کہ انہوں نے متعدد مسائل میں اپنے سے مختلف الخیال علما کو اہل سنت شمار کیا ہے.
بعض احباب اس پر یہ کہتے ہیں کہ ترادف کے قول پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے یہ غور کرنا چاہیے کہ قائلین ترادف کی ترادف سے مراد کیا ہے؟ کیوں کہ ترادف کے قائلین کے درمیان اس بات پر کافی اختلاف پایا جاتا ہے کہ آخر مسلک اعلی حضرت کس اعتبار سے مسلک اہل سنت کا مترادف ہے، عقائد و فروع دونوں میں مترادف ہے یا صرف عقائد میں؟ اس لیے ترادف کے انکار کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ یہ انکار کس جہت سے اور کن کے اعتبار سے ہے؟
اس پر عرض ہے کہ ترادف تو کلی یکسانیت کو ہی کہتے ہیں، جزوی یکسانیت ترادف نہیں کہی جاتی.
رہا یہ نکتہ کہ مسلک اعلی حضرت صرف عقائد کے معاملے میں مسلک اہل سنت کے مترادف ہے، تو یہ بات بھی قابل غور ہے، کیوں کہ عقائد کی تین سطحیں ہیں:
۱: عقائد دین، اس سطح پر تو تمام اہل قبلہ کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف ہے.
:۲ عقائد اہل سنت، اس سطح پر تو تمام سنی علما کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف ہے.
۳: عقائد فروع، اس سطح پر تو کسی بھی سنی عالم کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف نہیں.
بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقائد کی دوسری سطح کے لحاظ سے اگر کوئی مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کے مترادف کہے تو اس میں کیا خرابی ہے؟
جواباً عرض ہے کہ اس میں دو خرابیاں ہیں:
۱- یہ جزوی یکسانیت ہوئی، جس سے ترادف ثابت نہیں ہوتا.
۲- اور بالفرض اسے ترادف مان بھی لیجیے تو اس میں مسلک اعلی حضرت کی کیا تخصیص؟ اس سطح کے لحاظ سے تو ہر سنی عالم کا مسلک مسلک اہل سنت کا مترادف ہے۔))))
اور اس ترادف پر ایک سوال یہ بھی وارد ہوتا ہے کہ یہ اہل ہند کے لیے ہے یا پھر پوری دنیا والوں کے لیے ؟؟؟
اب مسلک اعلی حضرت کہنے میں خرابی کیا لازم آئیں گی وہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
*سواد اعظم کے بحر بیکراں کو محدود کرنا لازم آئے گا۔
*مسلک اہل سنت والجماعت جو کہ ایک عالمگیر اور پندرہ سو سال سے قائم ایک مستقل پہچان ہے اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہے اور دور نبی سے لیکر موجودہ زمانے تک سواد اعظم کے لیے عرب و عجم میں مستعمل ہے اس سے انحراف لازم آئے گا ۔
*معترضین یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ مسلک تو ایک صدی پہلے کی ایجاد ہے ۔
وغیرھم ذالک۔
آخری بات.
یہ کہ ما بہ الامتیاز کی اصطلاح اسی وقت استعمال کی جا سکتی ہے جب کہ مشبہ و مشبہ بہ وجہ شبہ میں من کل الوجوہ مشترک ہوں اور ان دونوں میں تمیز کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو دونوں میں فرق پیدا کرنے کے لئے کسی وصف زائد کو ما بہ الامتیاز کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔۔حالانکہ اہل سنت کے مقابلے میں تمام فرقہ باطلہ کے عقائد و نظریات اظہر من الشمس ہیں کہ وہ باطل ہیں اور اگر وہ لوگ اپنے تمام عقائد و نظریات کو اہل سنت کے عقائد سے موسوم کر رہے ہیں تو اس بنا پر پورے اہل سنت والجماعت کو ایک شخصیت کے تابع کر دینا اور اصل نام کو چھوڑ کر کسی طاویلی نام کا استعمال کرنا یہ کہاں کی دانائی ہے ۔جب کہ قرآن کے کی یہ ایت (جاء الحق و زھق الباطل )قوم مسلم کو یہ فکر دے رہی ہے کہ حق کی باطل پر فتح ہوئی اب اگر باطل حق کے مقابلے میں ظاہرا آئے یا پھر حق کے لبادہ میں ملبوس ہو کر آئے وہ باطل ہے تو باطل ہے۔ اس باطل کی وجہ سے ہم اپنی اصل پہچان کو نہیں چھوڑ سکتے ورنہ ہم باطل کو حق پر ترجیح دینے والے ہوں گے۔۔۔۔۔اور تمام فرقہ باطلہ کا لفظ اہل سنت کو استعمال کرنا یہ اہل سنت والجماعت سے من کل الوجوہ مشارکت نہیں ہے ہاں اگر من کل الوجوہ مشارکت ہوتی تب کسی زائد وصف کا قصد کیا جاتا
واللہ اعلم بالصواب
اب مسلک اعلی حضرت کہنے میں خرابی کیا لازم آئیں گی وہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
*سواد اعظم کے بحر بیکراں کو محدود کرنا لازم آئے گا۔
*مسلک اہل سنت والجماعت جو کہ ایک عالمگیر اور پندرہ سو سال سے قائم ایک مستقل پہچان ہے اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہے اور دور نبی سے لیکر موجودہ زمانے تک سواد اعظم کے لیے عرب و عجم میں مستعمل ہے اس سے انحراف لازم آئے گا ۔
*معترضین یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ مسلک تو ایک صدی پہلے کی ایجاد ہے ۔
وغیرھم ذالک۔
آخری بات.
یہ کہ ما بہ الامتیاز کی اصطلاح اسی وقت استعمال کی جا سکتی ہے جب کہ مشبہ و مشبہ بہ وجہ شبہ میں من کل الوجوہ مشترک ہوں اور ان دونوں میں تمیز کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو دونوں میں فرق پیدا کرنے کے لئے کسی وصف زائد کو ما بہ الامتیاز کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔۔حالانکہ اہل سنت کے مقابلے میں تمام فرقہ باطلہ کے عقائد و نظریات اظہر من الشمس ہیں کہ وہ باطل ہیں اور اگر وہ لوگ اپنے تمام عقائد و نظریات کو اہل سنت کے عقائد سے موسوم کر رہے ہیں تو اس بنا پر پورے اہل سنت والجماعت کو ایک شخصیت کے تابع کر دینا اور اصل نام کو چھوڑ کر کسی طاویلی نام کا استعمال کرنا یہ کہاں کی دانائی ہے ۔جب کہ قرآن کے کی یہ ایت (جاء الحق و زھق الباطل )قوم مسلم کو یہ فکر دے رہی ہے کہ حق کی باطل پر فتح ہوئی اب اگر باطل حق کے مقابلے میں ظاہرا آئے یا پھر حق کے لبادہ میں ملبوس ہو کر آئے وہ باطل ہے تو باطل ہے۔ اس باطل کی وجہ سے ہم اپنی اصل پہچان کو نہیں چھوڑ سکتے ورنہ ہم باطل کو حق پر ترجیح دینے والے ہوں گے۔۔۔۔۔اور تمام فرقہ باطلہ کا لفظ اہل سنت کو استعمال کرنا یہ اہل سنت والجماعت سے من کل الوجوہ مشارکت نہیں ہے ہاں اگر من کل الوجوہ مشارکت ہوتی تب کسی زائد وصف کا قصد کیا جاتا
واللہ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment