آج اہل سنت والجماعت میں اختلاف و انتشار کا ماحول،اکابر میں دوریاں کہ ایک اسٹیج پر فلاں ہوگا تو فلاں نہیں جائے گا، فروعی اختلافات پر منفی شور قیامت، نظریاتی اختلاف کو صغری کبری فٹ کرکے عقائد کا اختلاف قرار دینا پھر نتیجے میں اکابرین کی پگڑیاں اچھالنا ان کی جانب فحش کلمات کو منسوب کرنا عوام کو ان کے خلاف بد ظن کرنا وغیرہ وغیرہ آج انہیں چیزوں نے مسلک اہل سنت کو اقدامی محاذ سے دفاعی محاذ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
اور فیس بک پر مناظرہ کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ آج ایک عام شخص جس کو نماز پڑھنے کا مکمل طریقہ بھی نہیں معلوم وہ بھی جانتا ہے کہ فلاں عالم کا فلاں عالم سے اختلاف چل رہا ہے۔
اور اسی آپسی اختلاف کی بنیاد پر عوام بھی ژولیدگی کا شکار ہے کہ آخر ہم کن اکابر کو مانیں کہ ہر شخص تو ایک دوسرے کے نزدیک غلط ہے جسکا فائدہ دیوبندی اور وہابی اٹھا رہے ہیں کہ پورا پورا گاؤں علاقہ ان کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہوتا نظر آرہا ہے۔
اس کے برعکس
دیوبندی وہابی مکتب فکر کے اندر بھی ابتداء ہی سے بہت تنوع رہا ہے ۔ علماء دیوبند کا آپس میں علمی و سیاسی اختلاف رہا لیکن مجال ہے کہ اتنے سخت اختلاف کے باوجود کبھی کسی نے دوسرے کو غیروں کا ایجنٹ ، فکری مرعوبیت کا شکار ، دوسروں کے ذہن میں زہر گھولنے والا ، یا گستاخ، ضال مضل کہا ہو یا پھر آپس میں ملاقاتیں بند کی ہوں ۔
آج سوشل میڈیا پر جو بحث و مباحثہ کی مجلسیں لگی ہوئی ہیں اور وقت کو بیکار چیزوں میں استعمال کیا جارہا ہےان میں 99فیصد افراد اہل سنت والجماعت کے نظر آئیں گے۔
اور آخر اغیار سوشل میڈیا پر بحث مباحثہ کرتے کیوں نظر نہیں آتے؟؟ وہ جانتے ہیں کہ اس میں تعمیر سے کہیں زیادہ نتیجہ تخریب ہوگا۔
#احمد_صفی
I'm Ahmad Safi, I'm a student, it is my blog,through it I will present my ideology and my approach.
Monday, 25 June 2018
بھٹکے ہوے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
خوگر حمد سے اہل مدارس تھوڑا سا گلہ سن لیں
تحریر۔احمد صفی
پچھلے ڈیڑھ سو سال کے اندر بر صغیر ہند میں اسلام اور ملت اسلامیہ کے تحفظ کے لیے متعدد تحریکیں اٹھیں ان تحریکوں کی ایک کڑی تحریک مدارس بھی ہے حالانکہ ان تحریکوں نے وقتی طور کے لیے تو اثر دکھایا لیکن تا دیر قائم نہ رہ سکیں سوائے تحریک مدارس کے کہ علماء ہند نے مدارس کے قیام کے سلسلے میں جو کوششیں کی تھیں وہ انیسویں صدی سے لیکر آج تک پھیلی ہوئی ہیں اور یہی مدارس اسلام کے قلعے ٹھرے اور اسی مدارس کے فارغین نے اسلام اور ملک کی حفاظت کے لیے بے حد قربانیاں دیں ۔
جس مدارس نے کبھی علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا آزاد، مولانا علی رضا خان عابدی، مفتی عنایت احمد کاکوری، مولانا کفایت اللہ وغیرہ وغیر جیسے عظیم ہیرے جواہرات پیدا کیے تھے
کیا اب ان مدارس میں ایسے پروڈکٹس بننا بند ہوگئے ہیں؟
کہ صرف ہندوستان میں ہر سال ایک سروے کے مطابق 12000طلبہ فارغ ہوتے ہیں اس کے باوجود اچھے داعی، اچھے قائد، اچھے مفسر، اچھے محدث، اچھے قاری ،اچھے خطیب کا رونا کیوں ہے؟؟
حالانکہ نہ وہ دنیاوی کسی میدان میں نظر آتے ہیں مثلا فوج ہو ،عدالت ہو صحافت ہو، سفارت ہو وغیرہ وغیرہ
آخر وہ کہاں جاتےہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ انہیں زمین کھا لیتی ہے یا پھر آسمان اچک لیتا ہے؟
یا پھر مدارس انہیں اس لائق ہی نہیں بناتا کہ وہ مدرسہ، مسجداور مکتب کے علاوہ دوسرے میدانوں میں روزگارکے مواقع دستیاب کر سکیں ؟؟؟
اس میں آخر غلطی کس کی ہے مدارس کی یا پھر بچوں کی؟؟؟
95%غلطی مدارس کی ہے کہ موجودہ زمانے میں مدارس مسلک و مشرب کے نام پر قربان ہو گیے کہ تمام مسالک والوں نے اپنے اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت کے لئے مداس کا سہارا لیا اور اپنے مسلکی نظریے کے تناظر میں طلبہ کی پروش کرنا شروع کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر مسالک کا رد کرنا اور اپنے مسلک کی دعوت و تبلیغ کرنا طلبہ کےمستقبل کا ہدف بن گیا ۔اور اب مدارس سے داعی بن کر نکلنے کے بجائے مناظر بن کر نکلنے لگے ۔
امت کے راہنما بن کر نکلنے کے بجائے مسلک کے قائد نکلنا شروع ہو گیے۔
ملت اسلامیہ کا درد رکھنے والے بن کر نکلنے کے بجائے اپنے مسلک کا درد رکھنے والے نکلنا شروع ہوگیے
اہل مدارس سے گزارش یہ ہے کہ اپنے نظریات کی بھٹی میں طلبہ کے مستقبل کو مت جلاؤ بلکہ ان کی ایسی تربیت کرو کہ ملت اسلامیہ کو عظیم رہنما اور قائد مل سکیں ۔
یہ بات میں بہت ہی فخر سے کہہ رہا ہوں کہ اگر طلبہ مدارس کی اچھے طریقے سے تربیت کر دی جائے ان کو صحیح سمت دکھا دی جائے ان کے اندر یہ شعور پیدا کر دیا جائے کہ وہ اپنے اندر کی پنہا خوبیوں کو احساس کر سکیں تو وہ جس میدان میں قدم رکھے گا کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
اہل مدارس کے لیے ایک اور بات کہ آخر ان باطل تحریکوں کی کامیابی کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ ان وجوہات کو تلاش کرکے عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔
آر ایس ایس اور اس طرح کی باطل تحریکوں نے بہت بعد میں کام کرنا شروع کیا اس کے باوجود وہ لوگ ہر میدان میں اپنے افراد کو بیٹھانے میں کامیاب ہو گیے
خواہ وہ عدالت ہو یا پھر صحافت ہو یا تو پھر سفارت ہو کوئی ایسا میدان نہیں جہاں پر انہوں نے کامیابی نہ حاصل کی ہو۔
ماہر نفسیات ان کے یہاں، ماہر تعلیمات ان کے یہاں اس کے علاوہ مختلف رسرچر ان کے یہاں ہیں ۔
اگلی تحریر ۔طلبہ مدارس سے شکوہ
طلبہ مدارس بھی تھوڑا سا گلہ سن لیں
طلبہ مدارس بھی تھوڑا سا گلہ سن لیں
تحریر ۔احمد صفی
میں جانتا ہوں کہ میری اس تحریر سے طلبہ مدارس کو تکلیف ہوگی لیکن میں پیشگی معزرت چاہتا ہوں اور مذکورہ خامیوں سے میں بھی مستثنیٰ نہیں ۔
اس بزم سے مقصود ہے اصلاح مفاسد
نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا۔
آغاز علامہ اقبالؒ کے اس شعر سے
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے مخاطب طالب علم ہیں ۔کیونکہ طالب علم کا تعلیمی دور اس کے مستقبل والے زندگی پر گہرے نقوش مرتب کرتا ہے۔زمانہ طالب علمی میں ان کی تربیت کا عمل جس قدر شفاف اور کارآمد ہوگا اسی قدر قوم کو ان کا تابناک مستقبل دیکھنے کو ملے گا ۔
آزادی ہند کے پیچھے صداقت، عدالت شجاعت کے لباس سے مزین جو افراد تھے وہ مدرسے کے طالب علم ہی تھے۔
اور دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے انقلاب آئے خواہ وہ مادی انقلاب ہوں یا پھر تعلیمی وہ انہیں کے بدولت آئے۔
اے مدرسے کی ٹوٹی پھوٹی چٹائی پر بیٹھ کر علم حاصل کرنے والے اٹھ اور دنیا والوں کو بتا دے کہ کل بھی ہم اقوام عالم کے امام تھے اور آج بھی اپنے علم کی بدولت دنیا والوں کو اپنی تقلید پر مجبور کر سکتے ہیں پر اس کے لیے ہمیں اقبال کا شاہین بننا ہوگا ہمیں اپنی خامیوں کو دور کرکے خوبیوں میں بدلنا ہوگا، قربانیاں دینی ہوں گی ۔
مدرسے میں میں نے نو سال گزارے اور امسال دسواں ہے اور میں خود ایک طالب علم ہوں اور میں نے طلبہ کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اس بات کو میں مانتا ہوں کہ جس قدر خوبیاں اور اچھائیاں طلبہ مدارس کے اندر ہوتی ہیں وہ عصری اداروں کے پروردہ میں کم نظر آتی ہیں ۔
ان خوبیوں سے قطع نظر مجھے ان کی خامیوں پر اور طریق اصلاح پر بات کرنی ہے ۔
(1) اکثر طلبہ مدارس درسیات پر مکمل زور دیتے ہیں اخبارات، جرنلس میگزین، اور دیگر سوشلسٹ علمی ذرائع سے بہت دور ہوتے ہیں ۔
حالانکہ درسیات میں محنت کرنا غلط نہیں ہے بلکہ ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی استعمال کرنا چاہیے، تفریحی پروگرام غیر درسی تعلیمات و تحریکات میں بھی حصہ لینا چاہیے کیونکہ ان چیزوں کے ذریعے طالب علم کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔
(2)اکثر طلبہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ زیادہ رات تک پڑھنا کامیاب طالب علم کی علامت ہے یہ سوچ بلکل غلط ہے کیونکہ فزیکلی اعتبار سے آدھی رات کے بعد مائنڈ اتنی سرعت سے کام نہیں کرتا جتنی سرعت کے ساتھ باقی ٹائم میں کرتا ہے ۔اور دیر رات تک جاگنا ذہن اور حفظان صحت دونوں کے لیے مضر ہے ۔
(3)طلبہ مدارس کے اندر ایک اور کمی ہوتی ہے وہ ہے خود اعتمادی کا فقدان جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنے بڑوں سے بات کرنے میں گھبرانا،اسٹیج پر بولنے سے ڈرنا، استاد سے سوال کرتے وقت زبان کا کپکپانا وغیرہ وغیرہ ۔جس طالب علم کے اندر خود اعتمادی نہ ہو وہ ایسے امور کو انجام دے جس سے اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو مثلا کلاس میں سب سے آگے بیٹھنا،تحریر و تقریر کے مشقی پروگراموں میں حصہ لینا، بڑوں سے تبادلہء خیال کرنا وغیرہ وغیرہ۔ورنہ خود اعتمادی کا نہ ہونا کامیابی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
(4)طلبہ مدارس کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ وہ اپنے تعلیمی سفر کو بغیر کسی نصب العین کے طے کر رہے ہوتے ہیں کہ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد ان کے سامنے سوائے اندھیرے کے کچھ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اب کدھر جائیں؟ اس لیے ہمیں اپنا نصب العین متعین کرنا ہوگا اونچے خواب دیکھنے ہوں گے، بلند حوصلگی اور خود اعتمادی کا ذخیرہ پیدا کرنا ہوگا جو ہمیں بلند سے بلند پرواز پر آمادہ کر سکیں ۔
ایک بات اور عرض کروں کہ طلبہ مدارس نیورسٹی میں پڑھنے والوں سے کہیں زیادہ محنت کرتے ہیں اس کے باوجود طلبہ مدارس ان کی بنسبت کامیاب نہیں ہو پاتے کیوں؟ اس کی ایک بڑی وجہ نصب العین کا متعین نہ ہونا ہے ۔
(5)اکثر طلبہ جو کہ تعلیم میں تیز ہوتے ہیں ان کے دل میں کمزور طلبہ کے تئیں ہمدردی نہیں ہوتی مثلا ان سے گفتگو کرتے وقت سخت آواز میں بات کرنا، کسی مسئلے کو دو تین مرتبہ استفسار کر لینے پر غصہ ہو جانا اور پڑھانے سے انکار کر دینا وغیرہ وغیرہ اور یاد رکھیے یہ ایک اچھے طالب علم کی نشانی نہیں ہے ۔
اچھا طالب علم وہی ہوتا ہے جو اپنی جماعت کے کمزور بچوں کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے اور اخلاق و محبت،مفاہمت اور تال میل کے ساتھ رہنمائی بھی کرتا ہے اور ان کو اپنے ساتھ لیکر آگے بڑھتا ہے۔
(6)ایک باریک غلطی جو طلبہ کرتے ہیں وہ یہ کہ کتابوں کا مطالعہ کرتے وقت وہ اس بات پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ کتاب کتنی جلد ختم ہو جائے کہ ہم نے ایک سال میں کتنی کتابیں ختم کی ہیں ۔
لیکن جب اس کتاب کے بارے میں یا پھر اس کتاب کے کسی مسئلہ کے متعلق سوال کر لیا جاتا ہے تو عدم معرفت کا اظہار کرتے ہیں ۔
حالانکہ مطالعہ کرنے کا یہ طریقہ بلکل غلط ہے بلکہ مطالعہ اس طور پر کیا جائے کہ اگر اس کو اختصارا بیان کرنا یا لکھنا پڑ جائے تو بآسانی بیان اور لکھ سکیں ۔ورنہ فقط کتابوں کی تعداد بڑھانے سے فائدہ کچھ بھی ہونے والا نہیں سوائے تضیع اوقات کے۔
(7)95%طلبہ اس وقت اختلافی مسائل، اکابر کی اختلافی ترشیحات،مختلف فیہ شخصیات کے دفاع و رد کرنے پر بحث و مباحثہ کرنے سے بے حد دل چسپی لے رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مناظراتی روش پر طلبہ کی فکر پروان چڑھ رہی ہے ۔جماعت اختلاف کی اماجگاہ بنتی نظر آرہی ہے ،درسیاتی کتب کو چھوڑ کر اپنے نظریات کی تائید پر کتابیں چھانی جا رہی ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ جن مدارس کا قیام دعوت و تبلیغ کے لیے ہوا تھا اب انہیں مدارس سے داعی کم مناظر زیادہ نکل رہے ہیں۔ہمیں ان چیزوں کو اپنے لیے مضر سمجھنا چاہیے اور ہمیں زیادہ تر اپنی توجہ کو ایسی چیزوں کی طرف مبذول رکھنی چاہیے جس سے ہماری شخصیت میں نکھار پیدا ہو، ہمیں کامیاب بنانے میں معاون ہوں۔
ایک شعر ملاحظہ فرمائیں
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اپنی مٹی پر تو چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پر چلوگے تو پھسل جاؤگے.
مدارس بہتر یا پھر کالج؟
تحریر ۔احمد صفی
میں نے اسکول میں پانچویں کلاس تک پڑھائی کی اور باقی تعلیم مدرسے میں حاصل کی اور ہنوز جاری ہے ۔
ایک بات جو میں نے دیکھی وہ یہ کہ مدارس ہوں یا پھر کالج دونوں جگہ کچھ خوبیاں ہیں تو کچھ خامیاں بھی ہاں یہ الگ بات ہے کہ مدارس کی خوبیاں کالج سے کہیں زیادہ ہیں ۔
اور مدارس کی جو خامیاں ہیں وہ عملی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں لیکن کالج کی خامیاں نظریہ تعلیم میں نقص کا نتیجہ ہیں ۔
اور یہ بات مسلم ہے کہ عملی کوتاہیوں کو اصلاح کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے ۔اور نظریاتی خامیوں کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ خود نظریے کو مسترد نہ کیا جائے ۔
اب مدارس کی خوبیاں کالج کی خوبیوں سے زیادہ ہیں وہ کیسے؟؟؟ ملاحظہ فرمائیں ۔
(1)مدارس کی تعلیم عین سچائی اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہے ۔جبکہ کالج کی تعلیم کی بنیاد فقط ظنی ہوتی ہے۔
(2)مدارس کی تعلیم عین اسلامی تعلیم ہوتی ہے جبکہ کالج کی تعلیم میں اسلام کی جھلک بھی نہیں ہوتی ۔
(3)کالج کی تعلیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علم کو اس لائق بنا دیا جائے کہ وہ اچھا ذریعہ معاش حاصل کر سکے جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ کالج کی تعلیم حیوان کاسب بنانے کا کام کرتی ہے ۔جبکہ مدارس کی تعلیم طالب علم کے اندر خود شناسی کا شعور پیدا کرتی اور مادیت پرستی سے اوپر اٹھ کر روحانی سطح پر جینا سکھاتی ہے۔
(4)کالج طالب علم کی ذہن سازی اس طور پر کرتا ہے کہ دنیا کی مادی چیزوں کا حصول ہی ان کی آخری منزل ہے۔مدارس اپنے طلبہ کے اندر یہ فکر پیدا کرتا ہے کہ مادی چیزوں کا حصول ہماری ضرورت ہیں نہ کہ مقصد۔
(5)زندگی کی سرگرمیوں کا ایک نکتہ آغاز ہوتا ہے اور اسکی انتہا موت ہوتی ہے اور دنیا ایک شاہراہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔
کالج کے طالب علم اور مدارس کے طلبہ کی سرگرمیوں کا نکتہ آغاز ایک ہوتا ہے بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ کالج کے طلبہ اسی دنیا کو اپنی آخری منزل گمان کر لیتے ہیں اور اور طلبہ مدارس آخرت میں کامیابی کو اپنی منزل گمان کرتے ہیں ۔
(6)کالج کی تعلیم خالص دنیاوی ہوتی ہے اور مدارس کی تعلیم دینی و دنیاوی دونوں ہوتی ہے۔
یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سے انسان بنائے جات ہیں ۔
Sunday, 24 June 2018
تعلیمی نئے سال پر طلبہ کی خدمت میں چند معروضات
اور اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے نئے عزائم ،بلند حوصلوں کے ساتھ اپنے تعلیمی سفر کو شروع کریں گے۔
لیکن اس تعلیمی نئے سال پر طلبہ مدارس کی خدمت میں اس ادنی سے طالب علم کے کچھ معروضات ہیں گر قبول افتد زہے نصیب ۱-طلبہ کو چاہیے کہ اپنے اس نئے سال کی تعلیم کو شروع کرنے سے قبل اپنے ایک اچھے دوست کو علمی گائڈ بنائیں یعنی ایسا ساتھی جس سے یہ قوی امید ہو کہ وہ ہر اعتبار سے علمی، فکری اور مطالعاتی رہنمائی کر سکتا ہو اور آپ کا جو نصب العین ہے اس کے حصول کے خاطر آپ کی معاونت کرنے والا ہو اگر ایسا ساتھی دستیاب ہو جائے تو اس کے ہمراہ اپنا علمی سفر شروع کردیں ۲-آپ اپنا ایک گول، ہدف بنائیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد میدان عمل میں آپ کو کرنا کیا ہے؟ مثلا مقرر، محرر، صحافی، وکیل، ڈاکٹر وغیرھم ذالک بننا ہے۔
پھر اسی کے مطابق اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھیں اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ آپ خود کو اس میدان کے لائق بنا سکتے ہیں اور مدارس سے نکلنے کے بعد آپ کے سامنے راستے ہوں گے ۳-جب آپ اپنا نصب العین متعین کر لیں تو اب آپ کا جو ہدف ہے اس میدان میں جن شخصات نے نمایاں طور پر کامیابیاں حاصل کی ہیں ان میں سے کسی ایک کو اپنا آئڈیل بنا لیں اور پھر ان کی شخصیت کی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کریں اور ان چیزوں کا سوارغ لگائیں کہ وہ کیا چیزیں تھیں جو ان کی زندگی میں مؤثر ثابت ہوئیں اور انہوں نے یہ مقام و مرتبہ کیسے حاصل کیا؟ اور معلوم چل جانے کے بعد اپنی زندگی کے عادت و اطوار ،علمی مشغولیت اور فکری نقطۂ نظر کو ان کی زندگی کے حوالے کر دیں ۴-درسیاتی کتب کے علاوہ خارجی کتب کو بھی پڑھنا ہے اور مزید حالات حاضرہ اور موجودہ سیاسی و سماجی حالات کو سمجھنے کے لئے اخبار و رسائل کو بھی پڑھنا ہے ۵-اختلافی مسائل پر بحث و مباحثہ سے مکمل گریز کرنا ہے اور اپنی مؤثر شخصیات کے دفاع کے پیچھے وقت ضائع نہیں کرنا ہے۔۶-سوشل میڈیا کو تفنن طبع کی شوخی کا موضوع بنانے کہ بجائے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے ۔۷-ہمیں اپنے کمزور ساتھیوں کو اپنے ساتھ لیکر آگے بڑھنا ہے اور ان کو گری ہوئی نظروں سے دیکھنے کے بجائے ان کی ہر اعتبار سے مدد کرنا ہے اور ان کے چھوٹے چھوٹے علمی سرگرمیوں پر حوصلہ افزائی کرنی ہے ۔۸-اس وقت ملکی سطح پر حالات حاضرہ نا گفتہ بہ ہیں مدرسہ طاغوتی قوتوں کی نظروں میں ہیں اس لیے ہمیں سفر وحضر میں سیاسی باتیں کرنے سے یا کسی ایسی باتیں کرنے سے گریز کرنا ہے جس سے وہ ہمیں نقصان پہنچا سکیں ۔
Thursday, 21 June 2018
داعی امن کا پیامبر ہوتا ہے۔
داعی کی ذات سے امن قائم ہوتا ہے نہ کہ فتنہ۔۔
اس وقت سوشل میڈیا پر حضرت علی و حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما موضوع بحث ہیں۔اور مذکورہ موضوع کے متعلق تحریروں ک انبار لگ چکا ہے لیکن نتیجہ ابھی سوائے اس کے کچھ نہیں آیا کہ کوئی کسی کے نزدیک ناصبی بنا تو کوئی کسی کے نزدیک رافضی تو کسی کے نزدیک خارجی۔
اولا ایک بات عرض کردوں کہ اس موضوع کے متعلق اعلی حضرت علیہ رحمہ کی تحقیق انیق ہی احسن موقف ہے کہ فرق مراتب بے شمار
حق بدست حیدر کرار
مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار
اور اس تحقیق کے علاوہ دیگر نظریے متعین کرنا الفاظ کی بازی گری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔
اور اب اس موضوع کو اٹھانا امت کو فتنے میں ڈالنا ہے ۔
ثانیا یہ کہ ہاں حال ہی میں یہ بحث جہاں سے ایک نیا رخ پکڑی ہے اس کے نکتہ آغاز پر گفتگو کی جا سکتی ہے کہ امیر دعوت اسلامی کا عرس حضرت امیر معاویہ منانا غلط ہے یا صحیح؟؟ اور اس بات پر کسی شخص کو اتفاق بھی ہو سکتا ہے اور اختلاف بھی اور یہ دونوں فریق کے لئے روا نہیں کہ ایک دوسرے پر دشنام طرازی کریں کیوں کہ یہ ایک امر اضافی ہے جس پر کوئی دلیل قطعی نہیں ۔
لیکن میں یہاں پر ایک بات ذکر کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ داعی جو ہوتا وہ مصلح ہوتا اس کی ذات سے معاشرے میں امن و سلامتی قائم ہونی چاہیے نہ کہ نفرت و انتشار اور داعی کو اپنا ہر قدم قرآن و سنت کے مطابق اٹھانا چاہیے اور اپنی دعوت کے کام کو حالات کے تقاضے کے مطابق انجام دینا چاہیے تاکہ اس کی دعوت فتنے کا سبب نہ بنے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنے زمانے کے حالات کے مطابق اپنے مشن کو عام کیا تھا۔ مثلا(1)حضرت موسی علیہ السلام نے ایک زوال یافتہ امت کے درمیان اصلاحی کام کیا اور اپنے عمل کا آغاز غیروں کے خلاف جہاد کرنے کے بجائے بلکہ اپنی امت کو چالیس سال تک تربیت دی کیوں کہ اس وقت حالات ہی ایسے تھے۔
(2)حضرت نوح علیہ السلام نے ایک سرکش قوم کے درمیان اپنی دعوت کا آغاز کیا اور فورا ہی "اللہم دمر دیارھم"جیسی بد دعائیں نہیں دیں بلکہ اس کے لئے ایک لمبی مدت کا انتظار کیا ۔
(3)حضرت عیسی علیہ السلام ایسی قوم کی طرف بھیجے گئے جو ایمانی اور اخلاقی زوال کا شکار تھی تو آپ نے ان کو فضائل کی داستانیں نہیں سنائیں بلکہ وعید و تنبیہ کی زبان میں قوم کو جھنجھوڑا۔
(4)اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو غیر مسلم حکمران نے اقتدار میں شرکت کی پیش کش کی تھی تو آپ نے اصلاح کا کام انجام دینے کے لیے مفروضہ اندیش نتائج کی پرواہ کیے بغیر شریک اقتدار ہو گیے تھے ۔
(5) اتنے نبیوں کے اسلوب دعوت کا ذکر میں نے اسی پاچویں نکتے پر توجہ دلانے کے لئے باندھا تھا سمجھنے کی کوشش کریں وہ یہ حضرت ہارون علیہ السلام جو کہ موسی علیہ السلام کی جگہ قوم کی قیادت کررہے تھے تو آپ کی قوم مرتد ہو کر بجھڑے کی پوجا شروع کر دی تھی تو آپ نے ایسا نہیں کیا تھا کہ عواقب کی پرواہ کیے بغیر برائی کو مٹانے کے نام پر شور تحریک شروع کر دیا تھا بلکہ آپ نے یہ دیکھا کہ کہیں میرا برائی کو مٹانے والا قدم ایک فتنہ نہ بن جائے اور ایک چھوٹی برائی کو مٹانے کے نتیجے میں ایک بڑی برائی سامنے نہ آجائے مثلا قوم کے اندر تفریق نہ پیدا ہو جائے آپس میں قتل و قتال کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے تو آپ نے برائی مٹانے کہ بجائے اس برائی کو وقتی طور پر برداشت کرتے ہوئے خاموش اور حکیمانہ اصلاح کا طریقہ اختیار کیا انقلابی تبدیلی کے بجائے تدریجی تبدیلی کے اصول پر عمل کیا ۔
اب مقصد مقدمہ بھی ملاحظہ فرمائیں وہ یہ کہ اس زمانے میں عرس منانا زمانے کا تقاضہ نہ تھا بلکہ زمانے کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اگر لوگ بغض صحابہ میں مبتلاء ہیں تو امت میں امن و امان قائم رکھتے ہوے تدریجی طور پر اصلاح کی جاتی اور وقتی طور پر فتنہ خفیف کو برداشت کیا جاتا لیکن نتیجہ کیا نکلا کہ فتنہ خفیف تو مٹا نہیں بلکہ اس سے بڑا فتنہ ظہور میں آیا۔
اور میں مان بھی لیتا ہوں کہ جماعت اہل سنت میں کچھ ناصبی کچھ رافضی کچھ خارجی چھپے ہوئے تھے تو عرس امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بے نقاب کیا اب میں ایک سوال کرتا ہوں کہ سانپ جب بل میں چھپا ہوا ہو تب امان ہے یا پھر اس کو عوام کے درمیان لا دیا جائے تب امان ہے؟؟ جب یہ خارجی، رافضی، ناصبی چپھے ہوئے تھے تو صحابہ پر کھلے عام دشنام دہی کا سلسلہ دراز نہ تھا لیکن اس عرس کی وجہ سے آج صحابہ کو کھلے عام گالیاں دی جا رہی ہیں اگرچہ آپ کی ذہنی سطح پر عرس معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مؤید صحابہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن زمینی سطح پر انتشار کا سبب بن گیا ہے جو کہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔صحابہ سے محبت کروانے کے ہزار طریقے ہیں تو ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا گیا جو تفرق فی الامت کا سبب بنا مزید برآں یہ کہ بغض صحاب کے شکار افراد کو بغض پر مزید جری بنا دیا۔
اب ایک سوال اور ہے کہ جب روافض، خوارج، ناصبی بے نقاب ہو گئے تو آپ نے کتنوں کو صراط مستقیم پر لایا صرف ایک کا نام بتائیے؟بلکہ وہ تو اور اپنے نظریے پر جری ہو گیے اور ذاتیات پر حملے شروع ہوگئے کیوں؟؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے دعوت کا غلط طریقہ اختیار کیا اپنی انا کی تسکین کے لیے آپ نے جبرا اپنی بات کو منوانا چاہا جو کہ فتنے کا سبب بن گیا اور دفاع صحابہ کے نام پر نفرت و انتشار کا بازار گرم کر دیا ۔
ایک بات اور ہے وہ یہ کہ آج داعی کی دعوت مدعوں قبول کیوں نہیں کر رہا ہے؟؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ داعی نتیجے سے بے خبر ہوکر صرف یہ دیکھ رہا ہے کہ میرا ایسا کرنا از روئے شرع غلط ہے یا صحیح ؟؟
عرس معاویہ رضی اللہ عنہ اس کی نمایا مثال ہے۔
حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ داعی یہ دیکھے کہ میرا ایسا کرنا فتنے کا سبب تو نہیں اور امر مستحب سے امت میں فتنہ برپا ہو رہا ہے تو نعرہ تکبیر بھی فتنہ ہے اسی فتنے کی ڈر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی عمارت کو اساس ابراہیم پر نہیں بنوایا بلکہ اساس مشرکین ہی پر چھوڑ دیا یہ کہہ کر کہ کہیں فتنہ نہ جنم لے لے اور آپ نے اھون النتیجتین پر عمل کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح غلط کو نہ دیکھا بلکہ آپنے یہ دیکھا کہ ایسا کرنا کہیں فتنے کو وجود نہ دے دے حالانکہ صحیح تو یہ تھا کہ کعبہ کو اساس ابراہیم پر تعمیر جائے
اب عرس معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی تناظر میں دیکھیے کہ برائی کا اس زمانے میں ظاہر ہونا یہ بڑا فتنہ ہے یا پھر ظاہر نہ ہونا بڑا فتنہ ہے؟؟ اس سوال پر ہر عقل مند کہے گا کہ برائی پوشیدہ ہو تو ہی بہتر ہے کیوں کہ برائی کا ظاہر نہ ہونا اھون النتیجتین ہے ۔
کیونکہ خوارج، روافض ،ناصبی کا ظاہر نہ ہونا یہ بڑا فتنہ نہ تھا بلکہ ظاہر ہونا بڑا فتنہ ہے کہ اب وہ ظاہر ہو گیے تو اب وہ برملہ اپنے نظریات کا اشتہار کررہے ہیں اب ان کے اندر کسی کا خوف نہ رہا اور آپ چند سطری تحریر لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے وہ تو اس قدر جری ہوچکے ہیں کہ آپ کے سینے پر چڑھ کر اپنے نظریے کا اعلان کریں گے جیسا کہ سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے اگر واقعی آپ کے اندر حب صحابہ ہے تو بحث و مباحثہ کا سلسلہ بند کرکے فضیلت صحابہ کو اس قدر عام کیجیے کہ خارجی، رافضی، ناصبی سب دم توڑ دیں ورنہ ان چند سطری تحریروں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ آپ کا یہ رویہ ہی صحابہ کو گالی دینے کا سبب بن رہا ہے۔
آخری بات ۔
ان لوگوں کے لیے جو حضرت معاویہ کو صحابی سمجھتے ہیں
یقینا صحابہ کرام آپس میں ایک دوسرے سے افضل ہیں لیکن یہ مقام تفضیل اللہ کے رسول کی طرف نظر کرتے ہوئے ہے نہ بندوں کی طرف نظر کرتے ہوے
جس طرح کہ انبیاء کرام ایک دوسرے سے افضل ہیں لیکن وہ اللہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے نہ کہ بندوں کی طرف نسبت کرتے ہوئے ۔ابن کثیر کی عبارت ہے کہ"لیسی مقام التفضیل الیکم و انماھو الی اللہ عزوجل"
اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے انبیاء یا صحابہ کے معاملے میں افضل اور غیر افضل کی بحث کو چھیڑا ان کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے ذہن میں یہ حقیقت زندہ شعور کے طور پر باقی نہ رہی کہ تمام انبیاء یا صحابہ یکساں طور پر مطلوب ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایسے لوگوں نے شعوری اور غیر شعوری طور پر صرف ایک کو ماڈل سمجھ لیا اور معاملہ یہاں تک بڑھا کہ دیگر لوگوں کے تئیں منفی سوچ پیدا ہو گئی ۔
صحابہ ہونے کی حیثیت سے سب ہمارے لئے ایک ہیں کون تقوی و پرہیز گاری یا مراتب میں کس مقام پر ہے وہ اللہ و رسول کا معاملہ ہے وہی بہتر جانتے ہیں ۔اسی لیے مشاجرات صحابہ پر سقوط ہی بہتر ہے
اب اگر آپ امیر معاویہ کو صحابی مانتے ہیں تو خدا را دشنام طرازی کا سلسلہ بند کیجیے۔
اگر صحابی نہیں مانتے ہیں تو ہر چہ خواہی کن ۔
اعلی حضرت کا موقف بہت ہی معتدل موقف ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو محبین صحابہ بنا اور بغض صحابہ سے دور رکھ اور حب صحابہ پر مرتے دم تک قائم رکھ۔
عرس معاویہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کو بغض معاویہ پر محمول نہ کیا جائے ۔
#احمد_صفی
سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داری
تحریر ۔احمد صفی
یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، سوشل میڈیا کا مقصد اس کائنات میں بسنے والے تمام انسانوں کو ایک دوسر ے سے قریب لانا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے جڑ سکیں، آپس میں خوشیاں بانٹ سکیں، ایک دوسرے کے افکار و خیالات سے استفادہ کرسکیں، ایک صحتمند ڈیبیٹ کا ماحول پیدا ہو تاکہ انسانی صلاحیتوں میں نکھار آئے، اچھے خیالات ideas سامنے آئیں اور پھر ہم خیال افراد کی ایک لڑی بنے جو ایک دوسری کے مددگار بن سکیں،
اسی لیے اکثر سوشل میڈیا سائٹس میں لائک کا آپشن تو ہوتا ہے لیکن انلائک کا نہیں ہوتا کیوں؟؟ وہ اس لیے کہ محبت عام اور نفرت کا خاتمہ ہو. اور مزید بلاک کا بھی آپشن ہوتا ہے وہ کس لیے؟؟ صرف اس لیے کہ اگر کوئی نفرت پھیلا رہا ہے ہتک آمیز پوسٹ لگا رہا ہے تو آپ بلاک کا آپشن استعمال کرکے اس کے منفی رویہ سے بچ سکتے ہیں ۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج اسلام پسند طبقہ کی اکثریت سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ تر اپنے نظریاتی مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے کر رہی ہے ۔
اکثر جب کسی کو کسی کے نظریہ سے اتفاق نہیں ہوتا تو اسے ٹرول troll کیا جاتا ہے، انتہائی سخت اور سستے تبصرے کئے جاتے ہیں ، نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ، گالیاں دی جاتی ہیں، غیر تو غیر اپنوں کی بھی دل آزاری کی جاتی ہے جو کہ سوشل میڈیا کے مقاصد کے بالکل برعکس ہے ، حالانکہ اگر شوشل میڈیا پر کسی کو کسی کی پوسٹ پسند نہ آئے تو اسے بآسانی نظر انداز کرکے آگے بڑھا جاسکتا ہے یا اگر کسی نظریہ سے اتفاق نہ ہو تو وقار کے ساتھ اسکا علمی انداز میں جواب دیا جاسکتا ہے یا اپنے وال پر اسکی تردید کی جاسکتی ہے ہمیں خیال رہنا چاہئے کہ سوشل میڈیا دل آزاری کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ رشتوں کو بنانے، ایک دوسرے کے افکار ونظریات سے فائدہ اٹھانے، مثبت اقدار کو بڑھاوا دینے، معلومات کو نشر کرنے اور صحتمند گفتگو کیلئے ہے تاکہ دنیا امن وسکون کا گہوارہ بن سکے۔
لیکن یہاں پر معاملہ بلکل بر عکس ہو چکا ہے کہ اس امر میں اس قدر غلو کر چکے ہیں کہ فیک آئڈیز کا استعمال کرکے نفرت کی بیج بو رہے ہیں ۔
اعلی شخصیات کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر قابل اعتراض پوسٹیں لگا رہے ہیں جو کہ افتراق وانتشار کا سبب بنتا نظر آرہا ہے۔
شکیلہ شیخ جو کہ فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کی رکن ہیں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں فیس بک ویکیپیڈیا کے حوالے سے ایک بات لکھی تھی کہ ہند وپاک سے 2017میں ایف آئی اے سائبر کرائم کو 30000سے زائد فیس بک آئڈیز کی شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 50% شکایات ان اکانٹس کی تھیں جن کا استعمال مذہبی لڑائی کے لیے کیا جاتا ہے ۔
اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی کتنے پیچھے ہیں جب کہ اغیار نے اس کا استعمال نفرت و انتشار پھیلانے کے بجائے اپنے مذہب و نظریات کی ترویج کے لئے کر رہے اور وہ اپنے اس مشن کامیاب ہو رہے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی دنیا ایک مصنوعی دنیا ہے لہذا اسے اسی حد تک رکھنا چاہئے جس سے ہماری حقیقی زندگی اور رشتے متاثر نا ہوں۔
اس کو ہمیں اسلام اور اپنی قوم کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔
اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کہ فیس بک پر بحث و مباحثہ جیسی فضولیات میں ایسے ایسے افراد شامل ہیں جو کہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں جو کہ بہت بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہیں ۔لیکن وہ اپنے وقت کو چند سطری تحریروں اور اس پر کمنٹ کے پیچھے ضائع کر رہے ہیں۔
ایک بات یاد رکھیے فیس بک اخبار کے مانند ہے یہاں پر لکھی تحریروں کی اہمیت صرف ایک دن کی ہے پھر ان کا ہونا نا ہونے کی طرح ہے ۔
اور ایک قول بہت مشہور ہے کہ کاتب ہمیشہ زندہ رہتا ہے لیکن وہ سوشل میڈیا والا نہیں بلکہ کتابوں والا زندہ رہتا ہے ۔
اس لیے ا س ناچیز کی گزارش ہے کہ ہم پروجیکٹ کے طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ اس سے آنے والی نسل کو فائدہ ہو ورنہ سوشل میڈیا پر تحریریں آئیں گی جائیں گی فائدہ کچھ بھی نہ ہوگا ۔
مسلک اعلی حضرت کہنا کیسا ؟؟؟
تحریر ۔احمد صفی
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب جب لوگوں نے عقائد اہل سنت سے انحراف کیا تو ہمارے اسلاف نے کسی بھی شخص کو مابہ الامتیاز کا درجہ نہیں دیا بلکہ ان کا رد بلیغ کیا اور کسی کو معتزلی کہا تو کسی کو خوارج وغیرہ کہا اور ان کو اہل سنت والجماعت سے ہمیشہ خارج مانا۔
اور مجدد دین و ملت نے جن عقائد کی ترویج اشاعت کی وہ سواد اعظم کے عقائد تھے ۔
اور آج مسلک اعلٰی حضرت کہنے پر اس قدر زور دیا جارہا جس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کے جواز پر نقلی و عقلی دلائل کا انبار موجود ہیں ۔
حالانکہ ابھی اس کے جواز پر نقلی دلائل تو نہیں ملے لیکن کچھ عقلی دلیلیں ہیں اور وہ بھی اعتراض کی زد میں ہیں ۔
مثلا پہلی دلیل ۔یہ ہے کہ مسلک اعلی حضرت اس لیے کہتے ہیں کہ آج کچھ فرقہ باطلہ نے خود کو اہل سنت والجماعت سے موسوم کرنا شروع کردیا ہے اس لیے خود کو ان سے ممتاز کرنے کے لیے مسلک اعلی حضرت کا استعمال کرتے ہیں ۔
اس دلیل کا جواب ایک سوال ہے وہ یہ کہ اگر کوئی شخص آپ کے گھر میں رہنے کے لیے بضد ہو جائے اور دعوی کرنے لگے کہ یہ میرا گھر ہے: تو کیا آپ اپنا گھر خالی کرکے اس کو دے دیں گے اور دوسرا گھر رہنے کے لیے لے لیں گے؟ نہیں
لیکن ہم لوگوں نے ان کے لیے مزید راہ ہموار کردی کہ چلو آپ استعمال کر رہے ہیں تو کیجیے اور ہم خود کو آپ سے ممتاز کرنے کے لیے اس کا مرادف لفظ استعمال کر لیں گے.
اس بات سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ نے ان کو اہل سنت والجماعت سے مان لیا ہے تبھی تو خود کو ان سے ممتاز کرنے لیے دوسرا لفظ وضع کرلیا ہے۔
دوسری دلیل ترادف ہے ۔
یہاں پر استاد محترم مولانا ذیشان مصباحی صاحب کی بات نقل کرتا ہوں
((معاصر علماے اہل سنت میں بہت سے ایسے اہل علم ہیں جو مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کے مترادف سمجھتے ہیں، ان کے باطنی اخلاص اور ظاہری مصلحت سے قطع نظر یہ بات حقیقت کی سطح پر درست نہیں۔ مزید یہ کہ ایسے حضرات کو ہمیشہ ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت پے، کہ مبادا کبھی اعلی حضرت سے کسی مسئلے میں اختلاف کیا اور سنیت سے باہر گئے.
مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کا مترادف قرار دینے سے تو خود اعلی حضرت بھی سنی نہیں رہتے، کیوں کہ انہوں نے متعدد مسائل میں اپنے سے مختلف الخیال علما کو اہل سنت شمار کیا ہے.
بعض احباب اس پر یہ کہتے ہیں کہ ترادف کے قول پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے یہ غور کرنا چاہیے کہ قائلین ترادف کی ترادف سے مراد کیا ہے؟ کیوں کہ ترادف کے قائلین کے درمیان اس بات پر کافی اختلاف پایا جاتا ہے کہ آخر مسلک اعلی حضرت کس اعتبار سے مسلک اہل سنت کا مترادف ہے، عقائد و فروع دونوں میں مترادف ہے یا صرف عقائد میں؟ اس لیے ترادف کے انکار کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ یہ انکار کس جہت سے اور کن کے اعتبار سے ہے؟
اس پر عرض ہے کہ ترادف تو کلی یکسانیت کو ہی کہتے ہیں، جزوی یکسانیت ترادف نہیں کہی جاتی.
رہا یہ نکتہ کہ مسلک اعلی حضرت صرف عقائد کے معاملے میں مسلک اہل سنت کے مترادف ہے، تو یہ بات بھی قابل غور ہے، کیوں کہ عقائد کی تین سطحیں ہیں:
۱: عقائد دین، اس سطح پر تو تمام اہل قبلہ کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف ہے.
:۲ عقائد اہل سنت، اس سطح پر تو تمام سنی علما کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف ہے.
۳: عقائد فروع، اس سطح پر تو کسی بھی سنی عالم کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف نہیں.
بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقائد کی دوسری سطح کے لحاظ سے اگر کوئی مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کے مترادف کہے تو اس میں کیا خرابی ہے؟
جواباً عرض ہے کہ اس میں دو خرابیاں ہیں:
۱- یہ جزوی یکسانیت ہوئی، جس سے ترادف ثابت نہیں ہوتا.
۲- اور بالفرض اسے ترادف مان بھی لیجیے تو اس میں مسلک اعلی حضرت کی کیا تخصیص؟ اس سطح کے لحاظ سے تو ہر سنی عالم کا مسلک مسلک اہل سنت کا مترادف ہے۔))))
اب مسلک اعلی حضرت کہنے میں خرابی کیا لازم آئیں گی وہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
*سواد اعظم کے بحر بیکراں کو محدود کرنا لازم آئے گا۔
*مسلک اہل سنت والجماعت جو کہ ایک عالمگیر اور پندرہ سو سال سے قائم ایک مستقل پہچان ہے اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہے اور دور نبی سے لیکر موجودہ زمانے تک سواد اعظم کے لیے عرب و عجم میں مستعمل ہے اس سے انحراف لازم آئے گا ۔
*معترضین یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ مسلک تو ایک صدی پہلے کی ایجاد ہے ۔
وغیرھم ذالک۔
آخری بات.
یہ کہ ما بہ الامتیاز کی اصطلاح اسی وقت استعمال کی جا سکتی ہے جب کہ مشبہ و مشبہ بہ وجہ شبہ میں من کل الوجوہ مشترک ہوں اور ان دونوں میں تمیز کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو دونوں میں فرق پیدا کرنے کے لئے کسی وصف زائد کو ما بہ الامتیاز کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔۔حالانکہ اہل سنت کے مقابلے میں تمام فرقہ باطلہ کے عقائد و نظریات اظہر من الشمس ہیں کہ وہ باطل ہیں اور اگر وہ لوگ اپنے تمام عقائد و نظریات کو اہل سنت کے عقائد سے موسوم کر رہے ہیں تو اس بنا پر پورے اہل سنت والجماعت کو ایک شخصیت کے تابع کر دینا اور اصل نام کو چھوڑ کر کسی طاویلی نام کا استعمال کرنا یہ کہاں کی دانائی ہے ۔جب کہ قرآن کے کی یہ ایت (جاء الحق و زھق الباطل )قوم مسلم کو یہ فکر دے رہی ہے کہ حق کی باطل پر فتح ہوئی اب اگر باطل حق کے مقابلے میں ظاہرا آئے یا پھر حق کے لبادہ میں ملبوس ہو کر آئے وہ باطل ہے تو باطل ہے۔ اس باطل کی وجہ سے ہم اپنی اصل پہچان کو نہیں چھوڑ سکتے ورنہ ہم باطل کو حق پر ترجیح دینے والے ہوں گے۔۔۔۔۔اور تمام فرقہ باطلہ کا لفظ اہل سنت کو استعمال کرنا یہ اہل سنت والجماعت سے من کل الوجوہ مشارکت نہیں ہے ہاں اگر من کل الوجوہ مشارکت ہوتی تب کسی زائد وصف کا قصد کیا جاتا
واللہ اعلم بالصواب
Wednesday, 20 June 2018
آخر ہم سے غلطی ہوئی کہاں؟؟
جماعت کے تکفیری رجحان اور اسالیب دعوت سے نا آشانائی کے نقصانات پر ایک چشم کشا تحریر
تحریر۔احمد صفی
سفر کا تھکا ہارا مسافر خواب خرگوش کا لطف کے رہا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی کراہیت کے ساتھ فون اٹھایا علیک سلیک کے بعد انجناب عرض گزار ہوے کہ مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ آپ لکھنؤ تشریف لائے ہوئے ہیں .میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے پوچھا آپ کون؟ تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کا دوست زریاب ندوی بول رہا ہوں خیر تعارف کے بعد انہوں نے کہا کہ حضرت میرے فون کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ ندوہ تشریف لائیں اس لئے کہ یہ میری دیرینہ خواہش تھی کہ میں آپ کو اپنے مادر علمی آنے کی دعوت دوں۔اتنا سنتے ہی میں خاموش ہوگیا اور کچھ توقف کے بعد میں نے کہا کچھ وقفے کے بعد آپ کو جواب دیتا ہوں ۔اب اس فون نے تو میری نیند ہی اڑا دی اور میں یہ سوچنے لگا کہ اگر دعوت کو ٹھکراتا ہوں تو ایک عزیز دوست خفا ہوتا ہے اور اگر وہاں جاتا ہوں تو اپنی ذات کو اپنے ہم فکروں کے درمیان مشکوک کرتا ہوں خیر میں نے جانے کو ترجیح دیا صرف اس جمود گی کو توڑتے ہوئے جو کہ آج ہمارے معاشرے میں یہ عقیدہ سا بن چکا ہے کہ اسلام کے دیگر فرق کے لوگوں سے ملنا حرام ہے۔
اور ایسی فکر کی ترویج واشاعت کے پیچھے رندوں کے علاوہ میخانے کا ساقی بھی نظر آتا ہے۔
خیر اسلام کے دیگر مکاتب فکر کے لوگوں ملنا جائز ہے یا ناجائز؟ کن صورتوں میں مل سکتے ہیں یا کن صورتوں میں نہیں مل سکتے ؟کون مل سکتا ہے کون نہیں مل سکتا ؟یہ ایک الگ بحث ہے۔
اور میں نے ندوہ جانے کو جو ترجیح دیا اس کی دوسری وجہ اس تاریخی ادارہ کو دیکھنا اور کچھ کتابیں لینی تھیں ۔
خیر دوسرے دن میں اور میرے دو دوست صبح دس بجے ندوہ کی جانب پا بہ رکاب ہوگئے اور ہم لوگ جیسے ہی ندوہ پہنچے ان سے باہر ہی ملاقات ہو گئی شاید کہ وہ باہر ہمارا ہی انتظار کر رہے تھے ۔انہوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے مصافحہ و معانقہ کیا اور ہم کو اپنے روم پر لے گئے شاندار میزبانی کی ، پورے ندوا کا معائنہ بھی کروایا اور باتیں بھی ہوتی رہیں دوران گفتگو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے یہاں کسی کی تکفیر کی جاتی ہے؟ کسی پر گمراہ و بدعقیدگی کا فتویٰ صادر کیا جاتا ہے؟ عوام کو اس گمراہ شخص کے خلاف برانگیختہ کیا جاتا ہے؟؟
تو انہوں نے مسکراتے ہوے جواب دیا جی ہم لوگوں کے یہاں بھی غلطیوں پر گرفت کی جاتی ہے ۔لیکن اولا اس کے حق میں کوئی قطعی حکم صادر نہیں کیا جاتا بلکہ جس شخص سے غلطی ہوئی ہے، یا ایسے کلمات صادر ہوے ہیں جو کہ شرع سے متصادم ہیں تو یہاں کے کچھ ارباب اہل حل و عقد اس سے رابطہ کرتے ہیں اور حقیقت حال سے واقف ہوتے ہیں اگر اس نے واقعی ایسی خطا کی ہیں یا ایسے اقوال صادر ہوئے ہیں جو کہ از روے شرع غلط ہیں تو چار پانچ افراد پر مشتمل مجلس میں دلائل کے روشنی کے ساتھ اس کو توبہ کرنے کی تلقین کی جاتی اور اکثر خاطی شخص بخوشی توبہ کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔
اتنا سننے کے بعد میرے ذہن میں اہل سنت و الجماعت کی موجودہ صورت حال گردش کرنے لگی کہ آج ہمارے یہاں کوئی غلطی کرتا ہے ،یا اس کا نظریہ اسلام سے مختلف ہو جاتا ہے یا اس سے ایسے اقوال سرزد ہو جاتے ہیں جو کہ شریعت کے عمومی مزاج سے ہم آہنگ نہ ہوں تو اس کے ساتھ "جادلھم بالتی ھی احسن"کے رویہ کو اپنانے کے بجائے اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس سے رابطہ کرکے حقیقت حال سے واقف ہونے کے بجائے فقط سنی سنائی باتوں پر فتوے صادر کیے جاتے ہی، اس کے خلاف کتابچے چھپواے جاتے ہیں ،عوام کو اس کے خلاف بد ظن کیا جاتا ہے، اپنے اسٹیجوں پر اس کی ذات کو مجروح کیا جاتا ہے، اس کے نسب پر حملے کئے جاتے ہیں، اس کے عقائد و نظریات کا فیصل عوام کو بنایا جاتا ہے، معاشرے میں اس سے ملنے جلنے کو حرام قرار دیا جاتا ہے، اس کے اقوال میں تاویلات کے تمام دروازے بند کرکے فقط ظاہری مفہوم کو لیکر گمراہ و بدعقیدگی سے کفر تک کا سفر کرا دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ اور ان تمام چیزوں کا نتیجہ کچھ یوں نکل رہا ہے کہ ایک پر سکون معاشرہ اختلاف کی آماجگاہ بنتا نظر آرہا ہے ۔وہ شخص اصلاح وہدایت سے قریب ہونے کے بجائے اور دور ہوتا نظر آرہا ہے ۔
درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔
یہ تو سکے کا ایک رخ تھا آئیے دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں
وہ یہ کہ میرے ذہن میں کافی دنوں سےایک سوال تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ گمراہوں کے عقائد و نظریات سے عوام اتنی کثرت سے متاثر ہو رہی ہے؟؟
اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے عقائد ونظریات کے تبلیغ و اشاعت کے لئے ایک منظم طریقے سے زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں ۔ اپنی قوت اور پیسوں کو جلسے، محافل و اعراس میں اور کسی کے خلاف کتابوں کو چھپوانے میں صرف کرنے کے بجائے اپنے رقبہ کو بڑھانے ۔معاشرے کی اصلاح اور لوگوں کی فلاح و بہبودگی کے لئے خرچ کررہے ہیں۔
اب اسی عنوان کی مناسبت سےایک اور بات عرض کروں وہ یہ کہ
جب ندوہ کی تحریک چلی تو ہم نے اس کے رد پر کتابیں لکھیں تقاریریں کیں لیکن اس کےبرابر کا ادارہ نہ قائم کرسکے۔
اور اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے خلاف بھی ہم نے تحریرو تقریری طور پر خوب معرکہ آرائی کی لیکن وہ جانب منزل گامزن ہی رہا۔لیکن ہمارے یہاں سوائے اشرفیہ کے علاوہ کوئی ادارہ نہ قائم ہو سکا۔
اسی طرح ہم نے وحید الدین خان اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے لیٹریچر اور ترجموں کو پڑھنے اور سننے سے لوگوں کو منع تو کردیا لیکن ہمارے پاس عوام کو دینے کے لئے قیل و قال رد و ابطال کے مباحث کے علاوہ کچھ نہ تھا نتیجہ کیا نکلا کہ عوام ان سے متاثر ہوتی چلی گئی ۔
اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے خلاف ہم نے کتابیں لکھیں ان کے خلاف مفت کتابچے تقسیم کئے گئے ان کے رد پرجلسے جلوس میں عوام کا لاکھوں روپئے پانی کی طرح بہایا گیا۔لیکن فائدہ کچھ نظر نہ آیا بلکہ ان کی قائم کردہ تنظیم منہاج القرآن عالمی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی ہے، انہوں نے مختلف شعبہ ذات تعلیمی ادارے قائم کئے جس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ وہاں کی سندوں کو سرکاری سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے فاتحہ سے لیکر دہشت گردی کے خاتمے تک مختلف عنوان پر کتابیں لکھیں ان میں سے درجنوں کتابوں کو بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے داخل نصاب کیا۔اور مختلف عنوان پر خطبات بھی دئے جس کو سن کر مخالفین بھی اپنی روٹیاں چلا رہے ہیں اور ہمارے یہاں کوئی ایسا ادارہ یا تنظیم نظر ہی نہیں آتی جو منہاج القرآن کے مساوی ہو۔لیکن ہم لوگ فقط مخالفت کرتے رہے۔اور ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات سے غافل عوام کو مسلکی قیل و قال سکھاتے رہے۔لیکن اغیار نرمی و اخوت اور اعتدال کے ساتھ جدید اسلوب میں اپنے نظریے کی تشہیر و تبلیغ کرتے رہے۔اور ہم لوگ زمینی سطح پر کام کرنے کے بجائے فقط تحریرو تقریر سے ہر معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتے رہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اغیار کی پوزیشن اقدامی رہی اورہماری دفاعی ۔
مجدد الف ثانی علیہ رحمہ نے کہا تھا کہ اگر تم باطل تحریک کو مٹانا چاہتے ہو تو اس کے مساوی تم بھی ایک نئی تحریک چلا دو وہ بغیر رد کئے ہوے مٹ جائے گی انہوں نے بطور نظیر ایک واقعہ بھی بیان فرمایا کہ جب اکبر کے عہد میں دین الہی کی شکل میں ایک صلح کل مذہب وجود میں آیا تو علما اہل حق نے مناظرے سے کہیں زیادہ اسلام کی خالص تعلیم کو عام کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین الہی فقط تاریخ کا قصہ پارینہ بن گیا۔ ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ
میدان جنگ میں مخالف کی چالوں کو سمجھ لینے سے فتح کی گیند ۵۰%آپ کے پالے میں آجاتی ہے۔
حضرت علامہ خوشتر نورانی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اہل سنت وجماعت کی ترقی پر بات کرتے ہوئے چند سوال قائم کئے تھے ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج اہل سنت وجماعت کی پوزیشن اقدامی نہ رہی بلکہ دفاعی ہو گئی؟؟
اس ناچیز طالب علم نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
کسی بھی ملک کی حفاظت کے لئے سپاہیوں کے ایک دستہ کا خارجی محاذ پر نبرد آزما ہونا ضروری ہے۔تو وہیں پر ایک اور دستے کا ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لئے داخلی محاذ پر مورچہ سنبھالنا ضروری ہے۔اور فقط کسی ایک محاذ پر بر سر پیکار ہونے سے ملک کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔
اس طرح اہل سنت و جماعت پر ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب کہ احقاق حق ابطال باطل کے زعم میں مناظرے کی محفلیں شباب پر تھیں، رد پر کتابوں کے لکھنے کا اور تقریریں کرنے کا سلسلہ دراز تھا عوام کی فکری ژولیدگی بڑھتی ہی جا رہی تھی اور منفی کے علاوہ مثبت نتیجہ نظر ہی نہیں آرہا تھا اور اسی رد و ابطال کو ہی دین کے تبلیغ کا ذریعہ سمجھ لیا گیا تھا،اور اس رد و ابطال کی جنگ میں زیر و زبر سبھی شامل تھے،اور امت کی اور دیگر حاجتوں کو پس پشت ڈال کر مکمل ارتکاز رد و ابطال پرتھا۔اور ہنوز ایسی رمق باقی ہے۔
لیکن وہیں پر ہمارے مخالفوں نے اپنے علماء کو الگ الگ محاذ پر لگا دیا تھا، کہ ایک جماعت مناظرہ کرے گی تو ایک جماعت علمی میدان میں اپنے گھوڑوں کو دوڑائے گی، تو وہیں پر ایک دستہ سیاست کے میدان میں اپنا لوہا منوائے گا، تو وہیں پر ایک جتھہ لوگوں کی اصلاح کے لئے گھر گھر جاکر ان تک اپنا پیغام پہنچائے گا، وغیرہ وغیرہ۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم لوگ ان کا شد ومد کے ساتھ امت کے دیگر مسائل کو بھلا کر ان کا دفاع ہی کرتے رہے، اور وہ لوگ ترقی کی منزلیں طے کرتے رہےجس کی وجہ سے آج اگر کسی خالص سنی لائبریری کا جائزہ لیا جائے تو رد و ابطال پر لکھی گئی کتابوں کی بھر مار ہوگی لیکن اگر وہیں پر دیوبندی یا وہابیوں وغیرھم کے کتب خانوں کو چھانا جائے تو ہر ایک فن پر کتابوں کے الگ الگ ڈپارٹ ہوں گے۔آج غیروں کی اسی چال کا نتیجہ ہے کہ انکی کثرت دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔اور یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے آج اہل سنت وجماعت دفاعی مورچے پر ہے اور اغیار اقدامی محاذ پر۔
اور آئیے دیکھتے ہیں وہ کیسے؟ اس کو بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
سیاسی میدان میں ہمارا کوئی آدمی نظر نہیں آتا لیکن انکی کثرت موجود ہے۔
اغیار جب چاہتے ہیں صدر اور وزیر اعظم سے براہ راست ملاقات کرتے ہیں، لیکن کوئی ایک سنی عالم ایسا ہے جو براہ راست صدر یا وزیر اعظم سے مل سکے۔
حالات کےتقاضوں کے مطابق اغیار قرآن مقدس کے سائنسی پہلو، حدیث شریف میں موجود سیاسی و سماجی، معاشرتی و فلاحی فرامین کو سپرد قرطاس کر رہے ہیں جب کہ ہماری کتب کے عنوانات آج بھی قبر کے بچھو، گنجے سانپ، ابلیس کا رقص، ایک دوسرے کی نقاب کشائی، خنجر بر گردن فلاں وغیرہ وغیرہ ہیں۔
اغیار کے مدارس میں اساتذہ کی تنخواہیں ہماری نسبت بہت اچھی ہیں، ہمارے اساتذہ آج بھی پانچ سے دس ہزار پر کیوں گزارا کر ہے ہیں جب کہ کسی کے خلاف کتابیں لکھوانے اور جلسے جلوس کروانے میں بے دریغ خطری رقم کو پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے ۔
اور ان تمام چیزوں میں غیروں کی شکایت نہیں اپنی ہی خطا ہے
اور وہ خطا کیا ہے اسے بھی ملاحظہ فرمائیں
(۱)نظریاتی اختلاف تو ہونا فطری ہے کیونکہ اسی اختلاف کے بارے میں حدیث شاہد ہے کہ اختلاف امتی رحمۃ۔لیکن آج ہم نے نظریاتی اختلاف کو حل کرنے کے لئےطعن تشنیع، گالی و گلوچ اور علمی کبریائی کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہےاور اس پر مستزاد یہ کہ جو ہمارے نظریے کی موافقت کرتے ہوئے ہمارے مخالف پر گالی گلوچ کرتا ہے تو اس کے فعل کے جواز پر قرآن حدیث اور اقوال صحابہ سے دلیل قائم کرتے ہوئے اپنی جماعت کا علامہ قرار دیتے ہیں اور اس کو شیر فلاں جیسے القاب سے ملقب کردیتے ہیں ۔جو کہ دین کے اتحاد کو دیمک کی طرح پارہ پارہ کررہا ہے۔اور حالانکہ ان مسائل کو حل کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ طعن و تشنیع کرنے کے بجائے عالمانہ اور محققانہ انداز میں گفتگو کی جائے ۔
(۲)آج ہم نے حق پہچاننے کا معیار کتاب و سنت کو بنانے کے بجائے شخصیات کو بنا لیا ہے۔جس کا منفی نتیجہ یہ ظاہر ہو رہا کہ اس شخص سے اختلاف کو صغری و کبری فٹ کرکے اسلام سے اختلاف قرار دیا جا رہا ہے ۔اور حالانکہ قرآن نے اس نظریے کو سرے سے مسترد کیا ہے کہ اللہ نے فرمایا "اھدناالصراط المستقیم"اور سے مراد وہ راستہ ہے جس کی طرف قرآن و حدیث نے رہنمائی کی ہے اور جس کی تبلیغ کے لئے انبیاء و رسل مبعوث ہوئے۔اور اس پر چلنے والوں کو کچھ یوں یاد فرمایا ہے۔اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ اور ان لوگوں نے اسی راستے پر قائم رہتے ہوئے لوگوں کو اس پر چلنے کی ترغیب دلائی ۔
(۳)کہ آج ہم نے اسلام کی نمائندگی کرنے کے بجائے اپنے فرقہ و جماعت کے نمائندہ بن گئے صرف یہ گمان کرتے ہوئے کہ ہماری فرقہ ہمارا مشرب ہی عین اسلام ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام جو کہ کفر کے مقابلے میں تھا ہم نے اس کو فرقوں اور جماعت کے مقابل میں لاکر کھڑا کردیا۔
(۴)شخصیت پرستی کا بھوت ہم پر اس قدر چڑھا کہ ان کی ترویج و اشاعت اور مدح سرائی کو ہی اپنا نصب العین بنا لیا اور ان کی تشہیر و تبلیغ ہی کو شعوری یا غیر شعوری طور پر دین کی تبلیغ سمجھ لیا اور شخصیت پرستی کے چکر میں ہم نے حقیقت کا گلا گھوٹ دیا۔
اور شخصیت پرستی ہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے آج اہل سنت و جماعت میں آپسی خانہ جنگی کا ماحول شباب پر ہے ۔
اور شخصیت پرستی ہے کیا؟ اس کو بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
ایک آدمی ہوں میں ،مجھے اوتاد مت بنا
کہیں ذات چھپ نہ جائے سنگاروں میں ۔
شخصیت پرستی ایسا ماحول ہے جہاں کسی فرد واحد کو مقدس حیثیت دے دی جائے اور کوئی بھی فرد یا ادارہ اس سے اختلاف رائے کی جرات نہ کر سکے اور ہر حال میں اس کے حکم اور رائے کو تسلیم کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا پابند ہو جائے. اور اس کے کسی نظریے پر سوال اٹھانے والا قابل تعزیر و مذمت سمجھا جائے۔
اور شخصیت پرستی کی سب سے بڑی وجہ "غلو"ہے اور غلو کہتے ہیں کہ کسی شخص کی اتنی زیادہ تعریف یا اتنی زیادہ مذمت کرنا جس کا وہ مستحق نہ ہو۔
اور شخصیت پرستی کا منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے مقتضیٰ سے استفادہ کرنے کے بجائے اندھی تقلید میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ذہنی طور پر غلام بن جاتا ہے اور وہ اپنی سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے اور وہ دنیا کے تمام مسائل کا فیصلہ کتاب و سنت کی کسوٹی پر کرنے کے بجائے وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کا محبوب کس چیز کو حق اور کس چیز کو باطل کہہ رہا ہے۔
اور شخصیت پرستی میں انسان اسلام کی تبلیغ کرنے کے بجائے شخصیت کی ترویج و اشاعت میں مشغول ہو جاتا ہے ۔
اور قرآن و سنت سے استفادہ کرنے بجائے شخصیات کے قول و فعل پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہی اور اس کے قول کو حرف آخر سمجھنے لگتا ہے ۔
اور شخصیت پرستی کرنے والا شخص لوگوں سے جبراً اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ جتنی محبت میں اپنے شیخ سے کرتا ہوں اتنی ہی وہ بھی کرے۔
اور شخصیت پرستی میں انسان متشدد ہو جاتا ہے اپنے محبوب کی شخصیت کے علاوہ دیگر معزز شخصیتیں مجروح و حقیر نظر آنے لگتی ہیں ۔
اور اپنے شیخ کے نظریے کے علاوہ ہر ایک کا نظریہ باطل و نا حق معلوم ہونے لگتا ہے ۔
اور شخصیت پرستی میں انسان سمندر سے علم حاصل کرنے کے بجائے کنواں سے علم حاصل کرنا پسند کرتا ہے۔
اور شخصیت پرستی میں انسان اس بات کا خواہاں ہوتا ہے کہ میں اپنے محبوب کا جتنا ادب کرتا ہوں اور جن القاب سے ملقب کرتا ہوں دوسرے لوگ بھی اتنا ہی ادب کریں اور اسی القاب سے یاد کریں ۔
اور شخصیت کی ترویج و اشاعت کرنے والا اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ یہ دین کا کام ہو رہا ہے ۔
اور حقیقت یہ ہے کہ آج اہل سنت و جماعت جن حالات سے دو چار ہے اس کی بنیاد ہی اصلا شخصیت پرستی اور اس کہ ترویج و اشاعت ہے ۔
ہم کو چاہیے کہ شخصیت پرستی سے اوپر اٹھ کر تمام شخصیتوں کو محض دین کا عالم اور اللہ کا نیک بندہ سمجھ کر استفادے تک محدود رہیں اور تعلیم و تعلم کے اداب سے آگے نہ بڑھیں ۔اور اگر ایسی فکر ہماری ہو گئی تو یقینا آپسی انتشار اتحاد اور جوڑ میں بدل جائے گا ۔
اب کچھ خامیاں اور ذکر کی جارہی ہیں جن کی اصلاح ناگزیر ہے
(1)کسی بھی شخص کے نظریے سے اختلاف رائے رکھنا ہر ایک کا حق ہے ، لیکن فقط نظریے کے اختلاف کی بنیاد پر اس کا نام بگاڑ کر طرح طرح کی باتیں اس کے ساتھ بطور تضحیک منسوب کرنا اہل علم کا شیوا نہیں ہے۔لیکن آج عجب صورت حال ہے کہ فقط نظری اختلاف کی بنیاد پر نہ جانے کتنی عظیم شخصیتوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
(2)اور دوسری غلطی یہ ہے کہ آج کسی کی بات کو سننے یا پڑھنے سے پہلے ہی ہم فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں کہ اسے قبول کرنا ہے یا رد؟
اور یہ فیصلہ ہم اس تعارف کی وجہ سے کرتے ہیں جو اس صاحب تحریر کے بارے میں ہمارے مذہبی ہم خیال دوست ہمیں کرواتے ہیں ۔
یہ حقیقت میں علمی قید ھے جو ہمیں ایک کنویں میں مقید کر کے علم کے سمندر سے محروم رکھتی ہے.
(3)تیسری غلطی یہ ہے کہ بحث و مباحثہ میں اکثر جذبات میں آکر ہم لوگ مخاطب سے نازیبا کلمات کے ساتھ گفتگو کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ افسوس کا مقام ہے کہ جن دلوں میں قرآن محفوظ ہے، جس زبان سے قال اللہ و قال رسول کے کلمات ادا ہوتے ہیں اس زبان سے گالی و بد کلامی نکلتی کیسے ہے؟ اور اس بات پر دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم اللہ، اس کے رسول اور اس کے اصحاب سے محبت کا کرتے ہیں ۔ مگر زبان ابولھب کی سی اور اخلاق ابوجھل سا رکھتے ہیں۔
آج اہل سنت وجماعت کی جو صورت حال ہے اس سے چھٹکارہ کیسے پایا جائے؟؟
تو اس ناچیز طالب علم نے وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
(۱)نظریاتی اختلاف کو حل کرنے کے لئے طعن و تشنیع اور علمی کبریائی کے بجائے عالمانہ و محققانہ انداز میں گفتگو کی جائے۔
(۲) حق پہچاننے کا معیار شخصیات کو بنانے کے بجائے کتاب و سنت کو بنایا جائے۔
(۳)کسی خاص فرقہ یا جماعت کی نمائندگی کرنے کے بجائے اہل سنت و جماعت کی نمائندگی کی جائے۔
(۴)مسائل حل کرنے کے لئے شخصیات پر تبرا کرنے بجائے اپنے علمی اسلحہ خانے کو استعمال کیا جائے۔
(۵)اسلام کو کسی جماعت یا فرق کے مقابل کھڑا کرنے کے بجائے بمقابلہ کفر کھڑا کیا جائے۔
(۶)اپنے نقطہ نظر پر منجمد ہونے کے بجائے احترام و متبادل کی فضا قائم کی جائے۔
(ٰ۷)نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر تقارب و تحالف کی راہیں مسدود نہ کی جائیں۔
(۸)مختلف فیہ مسائل کو منظر عام پر لانے کے بجائے خالص علمی و تحقیقی انداز میں حل کیا جائے ۔
،
عزیز بیٹی ملالہ
عزیز بیٹی ملالہ سلامت رہو امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہ...

-
طلبہ مدارس بھی تھوڑا سا گلہ سن لیں تحریر ۔احمد صفی میں جانتا ہوں کہ میری اس تحریر سے طلبہ مدارس کو تکلیف ہوگی لیکن میں پیشگی معزرت چاہتا ہ...
-
اسلامی ریاست جب مکمل طور سے وجود میں آگئی اور اسلام پہلے کی بنسبت کافی تیزی سے پھیلنے لگا یہاں تک کہ بڑے بڑے علاقے اور ملکوں پر اسلام کا پر...
-
تحریر ۔احمد صفی اسلام کی پوری تاریخ میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس میں کسی نے مسلک اہل سنت کو کسی ایک ذات کی طرف منسوب کیا ہو۔ ت...