Wednesday, 9 January 2019

اپنے سب سے عزیز دوست (عفان عزیزی )کے نام نصیحت نامہ۔۔۔ تمہارے دوست احمد صفی کے قلم سے ۔


مدرسے کی زندگی کی کتنی صبحیں اور کتنی شامیں ہم نے ساتھ گزاریں
مجھے وہ دن بھی یاد ہے،جب مدرسہ میں تمہارا پہلا سال تھا اور میرا شاید کہ تیسرا. تم دس سال کے تھے تم نے اپنی پڑھائی کا آغاز نورانی قاعدہ سے کیا تھا اور خدا کے فضل سے تم نے بہت جلد حفظ قرآن مکمل کر لیا تھا تم اس وقت  اتنے چھوٹے تھے کہ لوگ دستار کے موقع تم سےجھک کر معانقہ کر رہے تھے ۔
یہاں تک کہ تم نے شعبہ عالمیت میں بھی داخلہ لے لیا
اور اپنے تعلیمی سفر میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور ہر جماعت میں اعلی پوزیشن حاصل کرتے رہے علمی مسابقہ میں ہمیشہ انعام کے مستحق قرار پائے یہاں تک کہ تم اپنی خوبیوں کی بنیاد پر طلبہ اور اساتذہ کے عزیز بن گئے ۔
لیکن 2019 نہ جانے تمہارے لیے کیا لیکر آیا کہ تم نے اپنے مادر علمی کو تعلیم مکمل ہونے سے قبل ہی ہمیشہ ہمیش کے لیے الوداع کہہ دیا ۔5جنوری 2019 کو دوپہر کا کھانا تمہارے ساتھ کھایا اور پھر سو گیا عصر کی نماز کے بعد میری نظریں تمہیں تلاشتی رہیں لیکن تم کہیں نظر نہ آئے اچانک یہ خبر سن نے کو ملی کہ تم نے ہمیشہ کے لیے جامعہ کو چھوڑ  دیا ہے ۔وقتی طور پر تو دل کو جھٹکا لگا لیکن یہ سوچ کر خود کو منا لیا کہ تم نے اپنے لیے اس سے بہتر کچھ سوچا ہوگا اور اسی کے حصول کی خاطر تم نے اپنی راہ بدل لی ہے۔
اب تم کہاں جاؤ گے، کیا کرو گے، مستقبل کا تعلیمی لائحہ عمل کیا ہے؟؟ یہ تو مجھے صحیح طور پہ نہیں معلوم ۔
لیکن تمہارے اس دوست کی تم سے کچھ نصیحتیں ہیں جس کو تم میری جانب سے تحفہ بھی سمجھ سکتے ہو کیونکہ میں تم کو اس سے بہتر اور کچھ نہیں دے سکتا ۔
بس کہنا یہ ہے کہ مصیبتوں سے نہ گھبرانا۔ یہ مصیبتیں اپنی تکلیفی اداؤں سے ڈراتی ہیں، اپنے اندھیروں کا پتا دیتی ہیں، مگر ان اندھیروں کے پار روشنی کا پتہ تمہیں خود لگانا ہے۔
راستہ مشکل لگے تو بدلنا نہیں، بلکہ ان مشکلوں کے پردے کو چاک کر کے اس کے پیچھے چھپی ہوئی کامیابی کو ٹھونڈنا۔
تلاشِ محبت میں نہ نکلنا کہ پوری نسل کا تجربہ تمہارے سامنے کھڑا ہے، بلکہ اپنی ایک منزل بنانا اور اسی منزل کے مجاور بن جانا اور کامیابی کی تلاش میں نکلے بے کسوں کی پناہ کا کام کرنا ۔ جب تم کسی کو کامیابی کی شاہراہ دکھاؤ گے تو اللہ تم کو ضرور کامیاب کرے گا۔
میں تم پر کوئی زور نہیں دیتا اور نہ کوئی زبردستی کر رہا ہوں۔ جو تم بننا چاہو، بننا۔ بس جو بننا اس کی آخری مثال تم رہنا۔
کسی بھی محاذ پر رہنا کتابوں سے اپنا تعلق نہ توڑنا کیونکہ اس سے بہتر تمہیں کوئی ساتھی نہیں مل سکتا، جب تمہارے پاس مال و دولت نہ ہوگا تب کتابیں تمہیں کسی کے سامنے جھکنے نہ دیں گی۔
تم کل کوئی چھوٹا پیشہ کرنا یا کسی بڑے منصب پر بیٹھنا اس ذمہ داری کو اتنے اچھے سے نبھانا کہ وہ پیشہ اور وہ منصب دوبارہ تمہاری تلاش میں رہے۔ ہر وہ کام جو تم کرنا  وہ تم سے پہچانا جائے۔ اس کام کا منتہائے کمال تم بننا بس یہ تمہارا دوست چاہتا ہے
تمہاری پہچان تمہاری موجودہ حالت ہو ماضی نہ ہو ۔سفر سے تھک جانا تو آرام کے لیے رکنے کہ بجائے قدموں کو نئی منزلوں کی راحتوں سے روشناس کرانا ۔
تمہارا کوئی ہو یا نہ ہو تم سب کے بننا۔تمہیں کوئی نوازے یا نہ نوازے تم سب کو عطا کرنا، اپنا ہو یا پرایا ہر ایک کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا۔
جس میدان میں بھی جانا کسی غیر کے اثر کو قبول نہ کرنا بلکہ اپنا اثر چھوڑ دینا۔
صرف اپنے ہی لوگوں سہارا نہ بننا بلکہ  ہر بے کس و مجبور کا مسیحا بن جانا۔
راتوں کو آرام کا وقت نہ سمجھنا بلکہ انہیں راتوں میں ماہتاب کھینچ لانے کا ملکہ حاصل کرنا ۔
اپنے تعلیمی سفر کو ایک نصب العین بنا کر جاری رکھنا، دولت اور حسن کے مسافر نہ بننا بلکہ پوری توجہ کو علم کے حصول کے لیے مبذول کرنا کیوں کہ علم میں مہارت حاصل کرلوگے تو یہ تمام چیزیں تمہاری بارگاہ کی باندی ہوں۔
یہ کچھ ٹوٹے پھوٹے کلمات تھے باقی میری دعا یہی ہے کہ اللہ تم کو تمہارے مقصد میں کامیاب کرے جہاں جاؤ وہاں روشنی لٹاؤ ۔
جو خوشی تمھارے قریب ہو ، وہ صدا تمھارے نصیب ہو
تجھے وہ خلوص ملے کہ جو، تیری زندگی پہ محیط ہو
جو معیار تجھ کو پسند ہو ، جو تمھارے دل کی امنگ ہو
تیری زندگی جو طلب کرے، تیرے ہمسفر کا وہ رنگ ہو
جو خیال دل میں اسیر ہو ، ہر دعا میں ایسی تاثیر ہو
تیرے ہاتھ اٹھتے ہی یک بیک، تیرے آگے اسکی تعبیر ہو
تجھے وہ جہاں ملے جدھر ، کسی غم کا کوئی گذر نہ ہو
جہاں روشنی ہو خلوص کی ، اور نفرتوں کی خبر نہ ہو۔

Sunday, 28 October 2018

جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں

جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں ۔

خانقاہ عارفیہ کا صاحب سجادہ مدرسہ عارفیہ کا بانی ہوں۔
مسلکا سنی حنفی، مشربا چشتی ،قادری،نقشبندی، سہروردی اور نسبا عثمانی ہوں اور ان سب سے پہلے محمدی ہوں۔صوفیاء کی روایات کا پاسبان اور اسلام کا داعی ہوں۔

جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے امت مسلمہ کے بکھرتے ہوئے شیرازہ کو دیکھا تو کڑھن محسوس کی کہ آج ہر شخص اپنے گروہ کا داعی بنا ہوا ہے، مدارس جو دین کے قلعے تھے وہاں پر اپنے فرقہ کی تعلیم دی جا رہی ہے، فروعی اختلافات پر جنگ و جدل کا عجب ماحول بنا ہوا ہے کوئی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے، صوفیا کرام کی تعلیمات پر قدغن لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تصوف کو اسلام کا مغایر قرار دیا جارہا ہے ۔تو میں نے اس کڑھن کے سد باب کے لیے اور امت کو ایک مرکز پر لانے کے لیے پیش رفت کی اور جامعہ عارفیہ کی بنیاد ڈالی لیکن قائدین وقت نے میرے آگے بڑھنے کے راستوں کو مسدود کرنے کی بہت کوششیں کیں کہ کہیں ہماری قیادت نہ چلی جائے لیکن میں نے ان کی مخالفت پر کان دھرے بغیر آگے بڑھتا رہا کیونکہ مجھے فکر تھی اپنی قوم کی جو بے سہارا تھی اور ٹکٹکی باندھے منتظر تھی کہ کوئی مسیحا آئے ہماری کشتی کو اس بھنور سے نکالے ۔میری مخالفت ہوتی رہی  لیکن میں آگے بڑھتا ہی رہا ۔
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے۔

جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے اپنے دعوتی مشن کا آغاز فرد سے کیا میں نے فرد کی ذہنیت کو بدلنے کی کوشش کی کیونکہ میں جانتا تھا جب فرد کی ذہنیت بدلے گی تو آہستہ آہستہ افراد کی حد تک انقلاب آئے گا اور جب افراد میں انقلاب آئے گا تو قوم بدلے گی۔تبھی مجھے ایک چیز سمجھ میں آگئی کہ آخر لوگ تعمیری میدان میں کیوں کام کرنا نہیں چاہتے؟؟ وہ صرف اس لیے کہ تعمیری کام کرنا ایک انتہائی خاموش کام ہے اس میں آدمی کو کام زیادہ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ بہت کم ملتا ہے یعنی یہ کام ایسا ہے کہ قوم کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے اس کی بنیاد میں دفن ہو جانا ہے اس کام کی یہی مشکل نوعیت ہے جس کی بنا پر شہرت پسند افراد اس میدان میں محنت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔
لیکن میں نے اللہ کی رضا کے لیے تعمیری کردار ادا کرنا شروع کریا ۔

جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ لوگ دوسروں کے ساتھ اختلافی مسائل میں الجھ کر تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں حالانکہ زمانہ نے مجھے یہ تجربہ دیا ہے کہ انسان بیک وقت دو محاذ پر اپنی قوت صرف نہیں کر سکتا ہے اگر وہ نزاع میں الجھے گا تو تعمیری کام رک جائے گا اور اگر تعمیری کام میں مصروف ہوگا تو اسے نزاع کے میدان کو چھوڑنا پڑے گا ۔
اور میں ایسے موڑ پر کھڑا تھا کہ ایک طرف لوگ مجھے نزاع میں الجھانے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف میں تعمیری کام کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے مخالفت میں الجھے بغیر تعمیری کام کی طرف اپنی توجہ کو مبذول کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج میرے ساتھ  باصلاحیت علماء کی ایک جماعت ہے جو میرے مشن کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔  آج میرا قائم کیا ہوا ادارہ  اپنی منفرد پہچان بنا چکا ہے ۔جس کا الحاق جامع ازہر مصر اور جامعہ مصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی  ایران سے ہے جہاں پر طلبہ عارفیہ اپنی علمی تشنگی کو بجھا رہے ہیں ۔اور دیگر عصری اداروں سے بھی معادلہ ہو چکا ہے ۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں اور زندہ قوم کا بیٹا ہوں اس لیے میں مقاصد کو اہمیت دیتا ہوں، حال میں جیتا ہوں ماضی پہ شکوے نہیں کرتا، تنقید کا استقبال کرتا ہوں، عسر کی زمین پر یسر کی کھیتی کرتا ہوں، حقیقی ایشو پر آواز بلند کرتا ہوں نہ کہ دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہتا ہوں۔۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے تصوف پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا ،جس نے تعلیمات صوفیاء کو عام کرنے کے لیے ماہنامہ خضر راہ اور سالنامہ الاحسان کو جاری کیا تعلیمات تصوف کا نایاب فارسی متن مجمع السلوک (شیخ سعد الدین خیرآبادی) کو اردو میں ترجمہ کروایا جو کہ تعلیمات صوفیا کے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔

قریب ہے کہ زمانہ ٹھر کر بولے گا
کہ یہ فقیر تو قبضہ جہاں پہ رکھتا ہے

#احمدصفی

Tuesday, 4 September 2018

ناچیز کو داعی اسلام کی نصیحت

بیٹا! نفس پہ جو شاق گذرے وہ سالک کے لیے معراج ہے، انا کو جہاں ٹھیس پہنچے وہیں مقام بندگی ہے اور مقام بندگی ہی سے قرب کا راستہ ملتا ہے ‘’ تقرب ہے مقصود و مطلوبِ مومن’’

Sunday, 12 August 2018

مجھے سیاست داں بننا ہے

!!
مجھے سیاست دان بننا ہے!!!! 

ایک صاحب کہنے لگے جناب آپ کی دو تین تحریریں نظر سےگزریں جس میں آپ نے طلبہ مدارس کی توجہ کو اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنا تعلیمی سفر  مقصد متعین کر کے طے کریں ۔
لیکن آپ نے خود کا نصب العین بتایا نہیں ۔
تو میں نے ان کی اس بات پر جواب دیا کہ شروع میں میرا مقصد صحافی بننا تھا لیکن اب سیاست دان بننے کا ہے۔
وہ اس لیے کہ اگر میں صحافت کے میدان میں جاتا ہوں تو میری سرگرمیاں فقط کتاب و قلم تک محدود رہیں گی زمینی سطح پر اپنی قوم کے لیے کچھ نہ کر پاؤں گا اور میرے فن کے ناظرین صرف پڑھے لکھے ہوں گے اور عوام کا اس سے کوئی سروکار نہ ہوگا ۔اس لیے میں نے اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کے جزبے کے تئیں کافی غور و فکر کے بعد سیاست کے میدان کا مجاہد بننے کا فیصلہ کیا۔
اور میرے سیاست داں بننے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مدارس کے فارغین عموما مسجد و ممبر، تقریر و تحریر کو ہی اپنی تعلیم کا اصل مقصد سمجھتے ہیں ۔لیکن 
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے ۔
اور یہی وجہ ہے کہ عصری تعلیم گاہوں کے پڑھے ہوے افراد سیاست کے میدان میں نظر آتے ہیں لیکن وہاں پر ہمارا کوئی وجود نہیں ۔
تو اسی روایات کو توڑنے کے لیے میں نے یہ فیصلہ لیا کہ مجھے سیاسی میدان میں جانا ہے۔
اور رہی سیاست تو یہ کوئی غلط چیز نہیں ہے ۔بلکہ غلط تب ہے کہ 
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 

اور اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مذہب و سیاست اور مسجد قلعہ کے مابین رابطہ قائم کیا جائے ۔
اور جس کی نظیر آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام کی زندگی میں ملتی ہے کہ مسجد میں نماز کی امامت کرتے تھے اور اختیارات کے حوالے سے ریاست کے سربراہ بھی ہوتے تھے ۔
اور میرے عزم کو پختگی اور حوصلہ اس وقت ملا کہ جب حضور داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی نے تائید کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کی اور دعاؤں سے نوازا ۔
کہ میں راستے سے گزر رہا تھا تبھی حضور داعی اسلام کی نظر مجھ پر پڑی مجھ کو اشارے سے بلایا ۔
اور پوچھا کہ امسال کس جماعت میں ہو؟؟
تو میں نے جواب دیا جماعت ثامنہ میں ہوں ۔
داعی اسلام۔سال مکمل ہو جانے کے بعد کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ 
راقم الحروف ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی جانے کا ۔
داعی اسلام ۔وہاں کس مقصد کے لیے جا رہے ہو؟؟ 
راقم الحروف ۔سیاست میں جانے کے لئے ۔
جب میں نے اتنا کہا تو حضور داعی اسلام سے مجھے سینے سے لگا لیا اور نصیحت کی کہ بیٹا سیاست لذاتہ کوئی غلط چیز نہیں ہے. تم جاؤ اور جم کر محنت کرنا اور یوسف علیہ السلام کی سیاسی بصیرت کو گہری نظر سے سمجھنے کی کوشش کرنا اور موسی علیہ السلام کے اسلوب دعوت کو اختیار کرنا ۔اور آقا علیہ السلام کی سیرت کو سامنے رکھنا۔
اور خود کو ایک مسلم اور اہل سنت کا ایک فرد سے متعارف کرانا ۔

#احمدصفی

Monday, 25 June 2018

بھٹکے ہوے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل

آج اہل سنت والجماعت میں اختلاف و انتشار کا ماحول،اکابر میں دوریاں کہ ایک اسٹیج پر فلاں ہوگا تو فلاں نہیں جائے گا، فروعی اختلافات پر منفی شور قیامت، نظریاتی اختلاف کو صغری کبری فٹ کرکے عقائد کا اختلاف قرار دینا  پھر نتیجے میں اکابرین کی پگڑیاں اچھالنا ان کی جانب فحش کلمات کو منسوب کرنا عوام کو ان کے خلاف بد ظن کرنا وغیرہ وغیرہ آج انہیں چیزوں نے مسلک اہل سنت کو اقدامی محاذ سے دفاعی محاذ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
اور فیس بک پر مناظرہ کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ آج ایک عام شخص جس کو نماز پڑھنے کا مکمل طریقہ بھی نہیں معلوم وہ بھی جانتا ہے کہ فلاں عالم کا فلاں عالم سے اختلاف چل رہا ہے۔
اور اسی آپسی اختلاف کی بنیاد پر عوام  بھی ژولیدگی کا شکار ہے کہ آخر ہم کن اکابر کو مانیں کہ ہر شخص تو ایک دوسرے کے نزدیک غلط ہے جسکا فائدہ دیوبندی اور وہابی اٹھا رہے ہیں کہ پورا پورا گاؤں علاقہ ان کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہوتا نظر آرہا ہے۔
اس کے برعکس
دیوبندی وہابی مکتب فکر کے اندر بھی ابتداء ہی سے بہت تنوع رہا ہے ۔ علماء دیوبند کا آپس میں  علمی و سیاسی اختلاف رہا لیکن مجال ہے کہ اتنے سخت اختلاف کے باوجود کبھی کسی نے دوسرے کو غیروں کا ایجنٹ ، فکری مرعوبیت کا شکار ،  دوسروں کے ذہن میں زہر گھولنے والا ، یا گستاخ، ضال مضل کہا ہو یا پھر  آپس میں ملاقاتیں بند کی ہوں ۔
آج سوشل میڈیا پر جو بحث و مباحثہ کی مجلسیں لگی ہوئی ہیں اور وقت کو بیکار چیزوں میں استعمال کیا جارہا ہےان میں 99فیصد افراد اہل سنت والجماعت کے نظر آئیں گے۔
اور آخر اغیار سوشل میڈیا پر بحث مباحثہ کرتے کیوں نظر نہیں آتے؟؟ وہ جانتے ہیں کہ اس میں تعمیر سے کہیں زیادہ نتیجہ تخریب ہوگا۔
#احمد_صفی

خوگر حمد سے اہل مدارس تھوڑا سا گلہ سن لیں


تحریر۔احمد صفی

پچھلے ڈیڑھ سو سال کے اندر بر صغیر ہند میں اسلام اور ملت اسلامیہ کے تحفظ کے لیے متعدد تحریکیں اٹھیں ان تحریکوں کی ایک کڑی تحریک مدارس بھی ہے حالانکہ ان تحریکوں نے وقتی طور کے لیے تو اثر دکھایا لیکن تا دیر قائم نہ رہ سکیں سوائے تحریک مدارس کے کہ علماء ہند نے مدارس کے قیام کے سلسلے میں جو کوششیں کی تھیں وہ انیسویں صدی سے لیکر آج تک پھیلی ہوئی ہیں اور یہی مدارس اسلام کے قلعے ٹھرے اور اسی مدارس کے فارغین نے اسلام اور ملک کی حفاظت کے لیے بے حد قربانیاں دیں ۔
جس مدارس نے کبھی علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا آزاد، مولانا علی رضا خان عابدی، مفتی عنایت احمد کاکوری، مولانا کفایت اللہ وغیرہ وغیر جیسے عظیم ہیرے جواہرات پیدا کیے تھے
  کیا اب ان مدارس میں ایسے پروڈکٹس بننا بند ہوگئے ہیں؟
  کہ صرف ہندوستان میں ہر سال ایک سروے کے مطابق 12000طلبہ فارغ ہوتے ہیں اس کے باوجود اچھے داعی، اچھے قائد، اچھے مفسر، اچھے محدث، اچھے قاری ،اچھے خطیب کا رونا کیوں ہے؟؟
  حالانکہ نہ وہ دنیاوی کسی میدان میں نظر آتے ہیں مثلا فوج ہو ،عدالت ہو صحافت ہو، سفارت ہو وغیرہ وغیرہ
  آخر وہ کہاں جاتےہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ انہیں زمین کھا لیتی ہے یا پھر آسمان اچک لیتا ہے؟
   یا پھر مدارس انہیں اس لائق ہی نہیں بناتا کہ  وہ مدرسہ، مسجداور مکتب کے علاوہ دوسرے میدانوں میں روزگارکے مواقع دستیاب کر سکیں ؟؟؟
اس میں آخر غلطی کس کی ہے مدارس کی یا پھر بچوں کی؟؟؟
95%غلطی مدارس کی ہے کہ موجودہ زمانے میں مدارس مسلک و مشرب کے نام پر قربان ہو گیے کہ تمام مسالک  والوں نے اپنے اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت کے لئے مداس کا سہارا لیا اور اپنے مسلکی نظریے کے تناظر میں طلبہ کی پروش کرنا شروع کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر مسالک کا رد کرنا اور اپنے مسلک کی دعوت و تبلیغ کرنا طلبہ کےمستقبل کا ہدف بن گیا ۔اور اب مدارس سے داعی بن کر نکلنے کے بجائے مناظر بن کر نکلنے لگے ۔
امت کے راہنما بن کر نکلنے کے بجائے مسلک کے قائد نکلنا شروع ہو گیے۔
ملت اسلامیہ کا درد رکھنے والے بن کر نکلنے کے بجائے اپنے مسلک کا درد رکھنے والے نکلنا شروع ہوگیے

اہل مدارس سے گزارش یہ ہے کہ اپنے نظریات کی بھٹی میں طلبہ کے مستقبل کو مت جلاؤ  بلکہ ان کی ایسی تربیت کرو کہ ملت اسلامیہ کو عظیم رہنما اور قائد مل سکیں ۔
یہ بات میں بہت ہی فخر سے کہہ رہا ہوں کہ اگر طلبہ مدارس کی اچھے طریقے سے تربیت کر دی جائے ان کو صحیح سمت دکھا دی جائے ان کے اندر یہ شعور پیدا کر دیا جائے کہ وہ اپنے اندر کی پنہا خوبیوں کو احساس کر سکیں تو وہ جس میدان میں قدم رکھے گا کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
اہل مدارس کے لیے ایک اور بات کہ آخر ان باطل تحریکوں کی کامیابی کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ ان وجوہات کو تلاش کرکے عمل کرنے کی ضرورت ہے  ۔
آر ایس ایس اور اس طرح کی باطل تحریکوں نے بہت بعد میں کام کرنا شروع کیا اس کے باوجود وہ لوگ ہر میدان میں اپنے افراد کو بیٹھانے میں کامیاب ہو گیے
خواہ وہ عدالت ہو یا پھر صحافت ہو یا تو پھر سفارت ہو کوئی ایسا میدان نہیں جہاں پر انہوں نے کامیابی نہ حاصل کی ہو۔
ماہر نفسیات ان کے یہاں، ماہر تعلیمات ان کے یہاں اس کے علاوہ مختلف رسرچر ان کے یہاں ہیں ۔
اگلی تحریر ۔طلبہ مدارس سے شکوہ

عزیز بیٹی ملالہ

 عزیز بیٹی ملالہ سلامت رہو امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی  بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہ...