Friday, 31 January 2020

مسئلہ جہاد کی حساسیت و اہمیت

جہاد جو آج کے دور کا سلگتا ہوا موضوع ہے اسی کو ہتھیار بنا کر اپنوں اور غیروں نے اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے بری طرح استعمال کیا ہے۔اس وقت اسلام پر سب سے بڑا الزام جہاد کو بنیاد بنا کر دہشت گردی کا لگایاجاتا ہے۔جو کبھی مسلمانوں کی عزت کا محافظ تھا آج مسلمانوں کے بجائے مخالف طاقتوں کا ایک اہم اور بڑا ہتھیار بن چکا ہے جسے وہ اسلام کے خلاف ہر محاذ پر پورے شد و مد کے ساتھ استعمال کررہے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمان آج مظلوم ہونے کے باوجود دہشت گرد اور انسانیت کے لیے خطرے کا باعث سمجھے جارہے ہیںاور یہ ایسی آگ ہے جس کی تپش سے نہ صرف غیروں کی فکری جولان گاہیں جل رہی ہیں بلکہ خود مسلمانوں کے خرمن میں بھی یہ آگ لگی ہوئی ہے۔ 
امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ اس دہکتی آگ کو بجھائے، ورنہ نا جانے یہ آگ کتنے دلوں میں اسلام کے خلاف چنگاری پیدا کر دے گی۔کیوں کی آج کی نسل ہر چیز کی عقلی توجیہات کا تقاضا کرتی ہے ۔جو باتیںاس کی عقل کے موافق ہوتی ہیں وہ اس کو قبول کرتی ہے، ورنہ رد کر دیتی ہے۔
عام طورپر اسلامی جہاد کے متعلق جتنے بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں ان کی بنیادیں نقلی سے کہیں زیادہ عقلی دلائل پر ہوتی ہیں اور ان سوالات کے وہ عقلی جوابات کے متقاضی ہوتے ہیں اور سوالات ایسے ہوتے ہیں جن کو سننے کے بعد عام شخص تو دور ایک پڑھالکھا شخص بھی سوچنے پر مجبورہو جاتا ہےاور وہ اسلام کے متعلق شک و شبہات کے گہرے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔اس لیے ہم کو چاہیے کہ ہم اسلام پر غیروں کی جانب سے ہونے والے سوالات سے راہ فرار تلاش نہ کریں بلکہ ان کا جم کر مقابلہ کریں اور اسی نہج پر جواب دیں جس نہج پر سوالات کیے گئے ہیں۔ یہ بھی تبلیغ دین ہی کا حصہ ہے اور یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرے اور اس کی تعلیمات کا صحیح رخ دنیا والوں کے سامنے پیش کرے۔ چوں کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، جو رہتی دنیا تک رہے گا ،جو تمام افراط و تفریط سے پاک ہےاور اور اس کے اندرقیامت تک پیش آنے والے ہر سوال اور ہر چیلنج کے جواب کی صلاحیت موجود ہے۔
آج کا دور میدان میں جہاد کرنے کا نہیںبلکہ ذہنوں میں جہاد کرنے کا دور ہے۔ اکیڈمک وار کا دور ہے۔ آئیڈیاز اور نظریات کی جنگ ہے اور یہ جنگ ہر مذہب کے لوگ اپنی اپنی سطح پر لڑرہے ہیں۔اس لیے ہم کو دفاع اسلام کے لیے ہر اعتبار سے ہر محاذ کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ 
اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں نفس جہاد، اس کے اقسام،اس کی اہمیت و ضرورت، اس کے مقاصد،ریاست کے احکام،آیات جہاداوراحادیث جہاد کا پس منظر اور ان کی تفسیر و توضیح،جزیہ کے احکام، دارالاسلام،دار الکفرکے احکام اور تاریخ اسلام کا تفصیل کے ساتھ علم ہو۔ مزیدیہ کہ اسلام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز سےہم آشناہوں۔ زمانےکے مزاج سےواقفیت بھی ضروری ہے، تاکہ جوابات دینے میں مشکلات کا سامنا نا کرنا پڑے۔اسی سلسلے کی ایک چھوٹی سی کڑی اس ماہ کا ہمارا یہ جداریہ(دعوت وال میگزین )ہے جو کہ جہاد کے متعلق چند اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔
رب کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اس چھوٹی سی کوشش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے ۔

جہاد پر اعتراضات اور ان کے جوابات

اسلامی ریاست جب مکمل طور سے وجود میں آگئی اور اسلام پہلے کی بنسبت کافی تیزی سے پھیلنے لگا یہاں تک کہ بڑے بڑے علاقے اور ملکوں پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا ،دشمنانِ اسلام کے اندر یہ ہمت باقی نا رہی کہ مسلمانوں کے بالمقابل میدان میں اتر سکیں لیکن وہ اسلام دشمنی میں وہ اس قدر غلو کر چکے تھے کہ اپنا ہر لمحہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتے رہتے  تھے۔
جب وہ لوگ تلوار سے جنگ لڑنے میں مایوس ہوگئے تو انہوں نے ایک نیا منصوبہ بنایا کہ اب ہم کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ اب فکری جنگ کریں گے اور لوگوں کے سامنے اسلام اور پیغمبر اسلام کی غلط شبیہ پیش کریں گے، اسلامی تعلیم پر قدغن لگائیں گے ۔ انہوں نے اپنے اس منصوبے کے تحت اسلام پر متعدد طریقوں سے وار کیا کبھی پیغمبر اسلام کی ازدواجی زندگی پر سوال قائم کیا تو کبھی قرآن کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی تو کبھی مذہب اسلام کو قتل و غارت گری کا مذہب بتایا تو کبھی جہادکے متعلق لوگوں میں غلط سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی اور اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے یہاں تک کہ خود مسلمانوں کو شک و شبہ میں ڈال کر اسلام سے بیزار کردیا آج اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سارے لوگ اسلام کے بارےمیں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے، اسلام نے لوگوں کو لوٹ مار کرنا سکھایا ہے وغیرہ۔
اب ہم یہاں جہاد کے متعلق ہونے والے کچھ اعتراضات اور اسکے جوابات کو پیش کریں گے کیونکہ اسلام کو سب سے زیادہ بدنام کرنے کے لیے جس چیز کو ہتھیار بنایا گیا وہ جہاد ہے ۔
۱۔اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔
جواب۔انسان کے پاس دو چیزیں ہوتی ہیں پہلا جسم دوسرا قلب جسم کو تو تلوار کے زور پر قابو میں کیا جاسکتا ہے لیکن دل کو نہیں ۔حالانکہ ہم دیکھتے ہیں ہے کہ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دعوتی مشن کا آغاز کیا تھا تو اس وقت آپ تنہا تھے آپ کے پاس کوئی تلوار نہیں تھی اور مقابل میں پوری ملت کفر تھی یہاں تک کہ آہستہ آہستہ لوگ بغیر تلوار کے زور کے دامن اسلام سے وابستہ ہونے لگے ۔اس کےبر عکس کفار مکہ نے مسلمانوں کو ستانا شروع کردیا معاشرتی زندگی تنگ کردی اس کے باوجود پیغمبر اپنے ماننے والوں کو صبر کی تعلیم دیتے رہے یہاں تک مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے لیکن ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی اس کے باوجود مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا ۔یہاں اللہ نے خود قرآن مجید میں فرمایا ہے (لا اکراہ فی الدین) اس کے علاوہ بہت سارے واقعات اور بہت ساری مثالیں ایسی ملتی ہیں جوا س بات کو بتاتی ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق اور حق کی تعلیم کی بدولت پھیلا ہے ۔
اس کا دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر ایک داعی کے دعوت دینے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اخلاق پیش کرتا ہے اور ضروری نہیں کہ لوگ اس کی دعوت سے متاثر ہو کراسلام قبول کرلیں لیکن جب ایک بادشاہ اپنی تلوار کی طاقت دکھاتا ہے تو پوری رعایا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اگر مسلم بادشاہ تلوار کی زور پر اسلام پھیلائے ہوتے تو کوئی بھی شخص نا بچتا جو مسلم نا ہوتا حالانکہ ہم دیکھتے ہیں مسلم بادشاہوں کی حکومت میں بے شمار غیرمسلم اپنے رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارتے تھے اور بادشاہ وقت ان کے حقوق کی مکمل پاسداری بھی کرتاتھا۔ خود ہندوستان میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی ہے اگر انہوں نے تلوار کے زور پر اسلام پھیلایا ہوتا تو آج پورا ہندوستان مسلمان ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔
۲۔جب اسلام تلوار کی زور پر نہیں پھیلا تو پھر اسلام میں اتنی ساری جنگیں کیوں ہوئیں؟
جواب ۔اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اگر آپ پر کوئی حملہ کرتا ہے تو آپ اپنی حفاظت کی خاطر اس پر حملہ کر سکتے ہیں۔جب ہم اسلام میں ہوئی جنگوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں ہیں سوائے ایک دو کے مسلمانوں نے کسی بھی جنگ میں خود سے پیش قدمی نہیں کی بلکہ غیروں نے جب اسلام پر حملہ کیا تب مسلمانوں نے ان کے خلاف تلوار اٹھائی ہے ۔اور وہ جنگیں جس میں مسلمانوں نے پیش قدمی کی اس کی وجہ فتنے کا سد باب کرنا تھا اور وہ فتنہ یہ تھا کہ لوگوں کو اپنی مرضی سے مذہب کے انتخاب کرنے کی آزادی نہیں تھی تو اس مذہبی آزادی کی فضا ہموار کرنے کے لئے مسلمانوں نے پیش قدمی کی تاکہ لوگ اپنی مرضی سے جس مذہب کو چاہیں قبول کریں اور اللہ نے فرمایا(لا اكراه فی الدین )۳۔اسلام کے جنگ کرنے کا مقصد اگر اپنا دفاع اور فتنے کا سد باب کرنا تھا تو پھر فتح حاصل کرنے کے بعد کافروں کے مال پر قبضے کو اور بچے ہوئے لوگوں کو غلام بنانے کو جائز کیوں قرار دیا؟
اس سوال کے جاننے سے قبل ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ غلامی کا تصور پایا کب سے جاتا ہے؟ تو جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ غلامی کا تصور قبل اسلام سے چلا آرہا ہے اور اس وقت بھی شکست خوردہ لوگوں کے گلے میں غلامی کی زنجیریں ڈال دی جاتی تھیں اور ان کے مال پر قبضہ کر لیا جاتا تھا مزید ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا لیکن جب اسلام آیا تو یہ چیز اسلام میں بھی منتقل ہو گئی لیکن اس میں زمین آسمان کا فرق تھا وہ یہ کہ جب مسلمان اپنے مقابل کو شکست و ریخت سے دوچار کردیتے تو بقیہ افراد کو غلام بنا لیتے اور جو مال میدان جنگ میں ہوتا تھا صرف اسی پر قبضہ حاصل کرتے تھے اور غلام کے ساتھ وحشیانہ تشدد کرنے بجائے ان کے حقوق کی مکمل پاسداری کرتے تھے اور پھر ان کو آزاد کر دیتے تھے اور اسلام نے بے شمار مواقع پر غلام آزاد کرنے کی تعلیم و ترغیب بھی دی ہے نا کہ غلامی کلچر کو فروغ دیا ہے ۔اور جو قوم جنگ میں شکست کھا جاتی تھی اس کا جانی مالی بہت زیادہ نقصان ہو جاتا تھا وہ قوت و معیشت کے اعتبار سے بالکل کمزور ہو جاتی تھی اگر اسلام ان شکست خوردہ لوگوں کو غلام بنا کر ان کو حقوق نہ دیتا تو وہ بے یار و مددگار ہو جاتے اور اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے لوٹ ، قتل اور غارت کرتے جو فساد فی الارض کا سبب بنتا ۔
یہ تھے کچھ بنیادی اعتراضات اور ان کے جوابات ان کے علاوہ جہاد اور ایات جہاد پر بے شمار اعتراضات ہیں جن کے جوابات دئے جا چکے اور مزید دیے جارہے ہیں ۔

Wednesday, 9 January 2019

اپنے سب سے عزیز دوست (عفان عزیزی )کے نام نصیحت نامہ۔۔۔ تمہارے دوست احمد صفی کے قلم سے ۔


مدرسے کی زندگی کی کتنی صبحیں اور کتنی شامیں ہم نے ساتھ گزاریں
مجھے وہ دن بھی یاد ہے،جب مدرسہ میں تمہارا پہلا سال تھا اور میرا شاید کہ تیسرا. تم دس سال کے تھے تم نے اپنی پڑھائی کا آغاز نورانی قاعدہ سے کیا تھا اور خدا کے فضل سے تم نے بہت جلد حفظ قرآن مکمل کر لیا تھا تم اس وقت  اتنے چھوٹے تھے کہ لوگ دستار کے موقع تم سےجھک کر معانقہ کر رہے تھے ۔
یہاں تک کہ تم نے شعبہ عالمیت میں بھی داخلہ لے لیا
اور اپنے تعلیمی سفر میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور ہر جماعت میں اعلی پوزیشن حاصل کرتے رہے علمی مسابقہ میں ہمیشہ انعام کے مستحق قرار پائے یہاں تک کہ تم اپنی خوبیوں کی بنیاد پر طلبہ اور اساتذہ کے عزیز بن گئے ۔
لیکن 2019 نہ جانے تمہارے لیے کیا لیکر آیا کہ تم نے اپنے مادر علمی کو تعلیم مکمل ہونے سے قبل ہی ہمیشہ ہمیش کے لیے الوداع کہہ دیا ۔5جنوری 2019 کو دوپہر کا کھانا تمہارے ساتھ کھایا اور پھر سو گیا عصر کی نماز کے بعد میری نظریں تمہیں تلاشتی رہیں لیکن تم کہیں نظر نہ آئے اچانک یہ خبر سن نے کو ملی کہ تم نے ہمیشہ کے لیے جامعہ کو چھوڑ  دیا ہے ۔وقتی طور پر تو دل کو جھٹکا لگا لیکن یہ سوچ کر خود کو منا لیا کہ تم نے اپنے لیے اس سے بہتر کچھ سوچا ہوگا اور اسی کے حصول کی خاطر تم نے اپنی راہ بدل لی ہے۔
اب تم کہاں جاؤ گے، کیا کرو گے، مستقبل کا تعلیمی لائحہ عمل کیا ہے؟؟ یہ تو مجھے صحیح طور پہ نہیں معلوم ۔
لیکن تمہارے اس دوست کی تم سے کچھ نصیحتیں ہیں جس کو تم میری جانب سے تحفہ بھی سمجھ سکتے ہو کیونکہ میں تم کو اس سے بہتر اور کچھ نہیں دے سکتا ۔
بس کہنا یہ ہے کہ مصیبتوں سے نہ گھبرانا۔ یہ مصیبتیں اپنی تکلیفی اداؤں سے ڈراتی ہیں، اپنے اندھیروں کا پتا دیتی ہیں، مگر ان اندھیروں کے پار روشنی کا پتہ تمہیں خود لگانا ہے۔
راستہ مشکل لگے تو بدلنا نہیں، بلکہ ان مشکلوں کے پردے کو چاک کر کے اس کے پیچھے چھپی ہوئی کامیابی کو ٹھونڈنا۔
تلاشِ محبت میں نہ نکلنا کہ پوری نسل کا تجربہ تمہارے سامنے کھڑا ہے، بلکہ اپنی ایک منزل بنانا اور اسی منزل کے مجاور بن جانا اور کامیابی کی تلاش میں نکلے بے کسوں کی پناہ کا کام کرنا ۔ جب تم کسی کو کامیابی کی شاہراہ دکھاؤ گے تو اللہ تم کو ضرور کامیاب کرے گا۔
میں تم پر کوئی زور نہیں دیتا اور نہ کوئی زبردستی کر رہا ہوں۔ جو تم بننا چاہو، بننا۔ بس جو بننا اس کی آخری مثال تم رہنا۔
کسی بھی محاذ پر رہنا کتابوں سے اپنا تعلق نہ توڑنا کیونکہ اس سے بہتر تمہیں کوئی ساتھی نہیں مل سکتا، جب تمہارے پاس مال و دولت نہ ہوگا تب کتابیں تمہیں کسی کے سامنے جھکنے نہ دیں گی۔
تم کل کوئی چھوٹا پیشہ کرنا یا کسی بڑے منصب پر بیٹھنا اس ذمہ داری کو اتنے اچھے سے نبھانا کہ وہ پیشہ اور وہ منصب دوبارہ تمہاری تلاش میں رہے۔ ہر وہ کام جو تم کرنا  وہ تم سے پہچانا جائے۔ اس کام کا منتہائے کمال تم بننا بس یہ تمہارا دوست چاہتا ہے
تمہاری پہچان تمہاری موجودہ حالت ہو ماضی نہ ہو ۔سفر سے تھک جانا تو آرام کے لیے رکنے کہ بجائے قدموں کو نئی منزلوں کی راحتوں سے روشناس کرانا ۔
تمہارا کوئی ہو یا نہ ہو تم سب کے بننا۔تمہیں کوئی نوازے یا نہ نوازے تم سب کو عطا کرنا، اپنا ہو یا پرایا ہر ایک کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا۔
جس میدان میں بھی جانا کسی غیر کے اثر کو قبول نہ کرنا بلکہ اپنا اثر چھوڑ دینا۔
صرف اپنے ہی لوگوں سہارا نہ بننا بلکہ  ہر بے کس و مجبور کا مسیحا بن جانا۔
راتوں کو آرام کا وقت نہ سمجھنا بلکہ انہیں راتوں میں ماہتاب کھینچ لانے کا ملکہ حاصل کرنا ۔
اپنے تعلیمی سفر کو ایک نصب العین بنا کر جاری رکھنا، دولت اور حسن کے مسافر نہ بننا بلکہ پوری توجہ کو علم کے حصول کے لیے مبذول کرنا کیوں کہ علم میں مہارت حاصل کرلوگے تو یہ تمام چیزیں تمہاری بارگاہ کی باندی ہوں۔
یہ کچھ ٹوٹے پھوٹے کلمات تھے باقی میری دعا یہی ہے کہ اللہ تم کو تمہارے مقصد میں کامیاب کرے جہاں جاؤ وہاں روشنی لٹاؤ ۔
جو خوشی تمھارے قریب ہو ، وہ صدا تمھارے نصیب ہو
تجھے وہ خلوص ملے کہ جو، تیری زندگی پہ محیط ہو
جو معیار تجھ کو پسند ہو ، جو تمھارے دل کی امنگ ہو
تیری زندگی جو طلب کرے، تیرے ہمسفر کا وہ رنگ ہو
جو خیال دل میں اسیر ہو ، ہر دعا میں ایسی تاثیر ہو
تیرے ہاتھ اٹھتے ہی یک بیک، تیرے آگے اسکی تعبیر ہو
تجھے وہ جہاں ملے جدھر ، کسی غم کا کوئی گذر نہ ہو
جہاں روشنی ہو خلوص کی ، اور نفرتوں کی خبر نہ ہو۔

Sunday, 28 October 2018

جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں

جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں ۔

خانقاہ عارفیہ کا صاحب سجادہ مدرسہ عارفیہ کا بانی ہوں۔
مسلکا سنی حنفی، مشربا چشتی ،قادری،نقشبندی، سہروردی اور نسبا عثمانی ہوں اور ان سب سے پہلے محمدی ہوں۔صوفیاء کی روایات کا پاسبان اور اسلام کا داعی ہوں۔

جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے امت مسلمہ کے بکھرتے ہوئے شیرازہ کو دیکھا تو کڑھن محسوس کی کہ آج ہر شخص اپنے گروہ کا داعی بنا ہوا ہے، مدارس جو دین کے قلعے تھے وہاں پر اپنے فرقہ کی تعلیم دی جا رہی ہے، فروعی اختلافات پر جنگ و جدل کا عجب ماحول بنا ہوا ہے کوئی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے، صوفیا کرام کی تعلیمات پر قدغن لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تصوف کو اسلام کا مغایر قرار دیا جارہا ہے ۔تو میں نے اس کڑھن کے سد باب کے لیے اور امت کو ایک مرکز پر لانے کے لیے پیش رفت کی اور جامعہ عارفیہ کی بنیاد ڈالی لیکن قائدین وقت نے میرے آگے بڑھنے کے راستوں کو مسدود کرنے کی بہت کوششیں کیں کہ کہیں ہماری قیادت نہ چلی جائے لیکن میں نے ان کی مخالفت پر کان دھرے بغیر آگے بڑھتا رہا کیونکہ مجھے فکر تھی اپنی قوم کی جو بے سہارا تھی اور ٹکٹکی باندھے منتظر تھی کہ کوئی مسیحا آئے ہماری کشتی کو اس بھنور سے نکالے ۔میری مخالفت ہوتی رہی  لیکن میں آگے بڑھتا ہی رہا ۔
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے۔

جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے اپنے دعوتی مشن کا آغاز فرد سے کیا میں نے فرد کی ذہنیت کو بدلنے کی کوشش کی کیونکہ میں جانتا تھا جب فرد کی ذہنیت بدلے گی تو آہستہ آہستہ افراد کی حد تک انقلاب آئے گا اور جب افراد میں انقلاب آئے گا تو قوم بدلے گی۔تبھی مجھے ایک چیز سمجھ میں آگئی کہ آخر لوگ تعمیری میدان میں کیوں کام کرنا نہیں چاہتے؟؟ وہ صرف اس لیے کہ تعمیری کام کرنا ایک انتہائی خاموش کام ہے اس میں آدمی کو کام زیادہ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ بہت کم ملتا ہے یعنی یہ کام ایسا ہے کہ قوم کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے اس کی بنیاد میں دفن ہو جانا ہے اس کام کی یہی مشکل نوعیت ہے جس کی بنا پر شہرت پسند افراد اس میدان میں محنت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔
لیکن میں نے اللہ کی رضا کے لیے تعمیری کردار ادا کرنا شروع کریا ۔

جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ لوگ دوسروں کے ساتھ اختلافی مسائل میں الجھ کر تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں حالانکہ زمانہ نے مجھے یہ تجربہ دیا ہے کہ انسان بیک وقت دو محاذ پر اپنی قوت صرف نہیں کر سکتا ہے اگر وہ نزاع میں الجھے گا تو تعمیری کام رک جائے گا اور اگر تعمیری کام میں مصروف ہوگا تو اسے نزاع کے میدان کو چھوڑنا پڑے گا ۔
اور میں ایسے موڑ پر کھڑا تھا کہ ایک طرف لوگ مجھے نزاع میں الجھانے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف میں تعمیری کام کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے مخالفت میں الجھے بغیر تعمیری کام کی طرف اپنی توجہ کو مبذول کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج میرے ساتھ  باصلاحیت علماء کی ایک جماعت ہے جو میرے مشن کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔  آج میرا قائم کیا ہوا ادارہ  اپنی منفرد پہچان بنا چکا ہے ۔جس کا الحاق جامع ازہر مصر اور جامعہ مصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی  ایران سے ہے جہاں پر طلبہ عارفیہ اپنی علمی تشنگی کو بجھا رہے ہیں ۔اور دیگر عصری اداروں سے بھی معادلہ ہو چکا ہے ۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں اور زندہ قوم کا بیٹا ہوں اس لیے میں مقاصد کو اہمیت دیتا ہوں، حال میں جیتا ہوں ماضی پہ شکوے نہیں کرتا، تنقید کا استقبال کرتا ہوں، عسر کی زمین پر یسر کی کھیتی کرتا ہوں، حقیقی ایشو پر آواز بلند کرتا ہوں نہ کہ دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہتا ہوں۔۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے تصوف پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا ،جس نے تعلیمات صوفیاء کو عام کرنے کے لیے ماہنامہ خضر راہ اور سالنامہ الاحسان کو جاری کیا تعلیمات تصوف کا نایاب فارسی متن مجمع السلوک (شیخ سعد الدین خیرآبادی) کو اردو میں ترجمہ کروایا جو کہ تعلیمات صوفیا کے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔

قریب ہے کہ زمانہ ٹھر کر بولے گا
کہ یہ فقیر تو قبضہ جہاں پہ رکھتا ہے

#احمدصفی

Tuesday, 4 September 2018

ناچیز کو داعی اسلام کی نصیحت

بیٹا! نفس پہ جو شاق گذرے وہ سالک کے لیے معراج ہے، انا کو جہاں ٹھیس پہنچے وہیں مقام بندگی ہے اور مقام بندگی ہی سے قرب کا راستہ ملتا ہے ‘’ تقرب ہے مقصود و مطلوبِ مومن’’

Sunday, 12 August 2018

مجھے سیاست داں بننا ہے

!!
مجھے سیاست دان بننا ہے!!!! 

ایک صاحب کہنے لگے جناب آپ کی دو تین تحریریں نظر سےگزریں جس میں آپ نے طلبہ مدارس کی توجہ کو اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنا تعلیمی سفر  مقصد متعین کر کے طے کریں ۔
لیکن آپ نے خود کا نصب العین بتایا نہیں ۔
تو میں نے ان کی اس بات پر جواب دیا کہ شروع میں میرا مقصد صحافی بننا تھا لیکن اب سیاست دان بننے کا ہے۔
وہ اس لیے کہ اگر میں صحافت کے میدان میں جاتا ہوں تو میری سرگرمیاں فقط کتاب و قلم تک محدود رہیں گی زمینی سطح پر اپنی قوم کے لیے کچھ نہ کر پاؤں گا اور میرے فن کے ناظرین صرف پڑھے لکھے ہوں گے اور عوام کا اس سے کوئی سروکار نہ ہوگا ۔اس لیے میں نے اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کے جزبے کے تئیں کافی غور و فکر کے بعد سیاست کے میدان کا مجاہد بننے کا فیصلہ کیا۔
اور میرے سیاست داں بننے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مدارس کے فارغین عموما مسجد و ممبر، تقریر و تحریر کو ہی اپنی تعلیم کا اصل مقصد سمجھتے ہیں ۔لیکن 
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے ۔
اور یہی وجہ ہے کہ عصری تعلیم گاہوں کے پڑھے ہوے افراد سیاست کے میدان میں نظر آتے ہیں لیکن وہاں پر ہمارا کوئی وجود نہیں ۔
تو اسی روایات کو توڑنے کے لیے میں نے یہ فیصلہ لیا کہ مجھے سیاسی میدان میں جانا ہے۔
اور رہی سیاست تو یہ کوئی غلط چیز نہیں ہے ۔بلکہ غلط تب ہے کہ 
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 

اور اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مذہب و سیاست اور مسجد قلعہ کے مابین رابطہ قائم کیا جائے ۔
اور جس کی نظیر آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام کی زندگی میں ملتی ہے کہ مسجد میں نماز کی امامت کرتے تھے اور اختیارات کے حوالے سے ریاست کے سربراہ بھی ہوتے تھے ۔
اور میرے عزم کو پختگی اور حوصلہ اس وقت ملا کہ جب حضور داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی نے تائید کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کی اور دعاؤں سے نوازا ۔
کہ میں راستے سے گزر رہا تھا تبھی حضور داعی اسلام کی نظر مجھ پر پڑی مجھ کو اشارے سے بلایا ۔
اور پوچھا کہ امسال کس جماعت میں ہو؟؟
تو میں نے جواب دیا جماعت ثامنہ میں ہوں ۔
داعی اسلام۔سال مکمل ہو جانے کے بعد کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ 
راقم الحروف ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی جانے کا ۔
داعی اسلام ۔وہاں کس مقصد کے لیے جا رہے ہو؟؟ 
راقم الحروف ۔سیاست میں جانے کے لئے ۔
جب میں نے اتنا کہا تو حضور داعی اسلام سے مجھے سینے سے لگا لیا اور نصیحت کی کہ بیٹا سیاست لذاتہ کوئی غلط چیز نہیں ہے. تم جاؤ اور جم کر محنت کرنا اور یوسف علیہ السلام کی سیاسی بصیرت کو گہری نظر سے سمجھنے کی کوشش کرنا اور موسی علیہ السلام کے اسلوب دعوت کو اختیار کرنا ۔اور آقا علیہ السلام کی سیرت کو سامنے رکھنا۔
اور خود کو ایک مسلم اور اہل سنت کا ایک فرد سے متعارف کرانا ۔

#احمدصفی

عزیز بیٹی ملالہ

 عزیز بیٹی ملالہ سلامت رہو امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی  بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہ...