تحریر۔احمد صفی
غموما ایک سوال کیا جاتا ہے کہ طلبہ مدارس کی اکثریت ممبر ومحراب تک ہی کیوں محدود رہ جاتی ہے حالانکہ عصری علوم حاصل کرنے والے دنیا کے تمام شعبہ جات میں نظر آتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟؟؟
طلبہ مدارس کی ناکامی کے پیچھے بنیادی دو سبب ہے
(1)تعلیم کو بغیر کسی مقصد کے حاصل کرنا ۔
(2)احساس کمتری کا شکار ہونا۔
حالانکہ عصری اداروں میں بچوں کے اندر یہ چیزیں بہت کم پائی جاتی ہیں ۔
(1)ایک دن کلاس میں استادِ محترم نے ہر ایک طالب علم سے فردا فردا یہ سوال کیا کہ آپ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا کریں گے؟؟
تو اس سوال پر بعض طلبہ نے یہ کہا کہ ہمیں معلوم نہیں اور بعض نے کچھ توقف کے بعد کپکپاتی ہوئی آواز میں جواب دیا ۔
مجموعی طور پر نتیجہ یہی نکلا کہ تمام لوگ بغیر کسی مقصد کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
اور یہ دو تین سال سے یہ میری عادت سی بن گئی ہے کہ جب بھی میری ملاقات کسی طلبہ مدارس سے ہوتی ہے اور اگر وہ میرے ہم عمر یا پھر چھوٹے ہیں تو ان سے یہ سوال ضرور کرتا ہوں کہ تعلیم حاصل کرلینے کے بعد آپ کیا کریں گے؟؟
تو ابھی تک اکثریت ایسے ہی طلبہ کی ملی ہے جو بغیر کسی گول کے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا ہے ۔
اور بغیر کسی ٹارگٹ کے تعلیم حاصل کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب ایک بچہ سات آٹھ سال میں اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد مدرسہ سے باہر قدم رکھتا ہے تو اس کو سوائے اندھیرے کے کچھ نظر نہیں آتا کہ :اب میں کیا کروں کدھر جاؤں؟؟
اور ایک بات یاد رکھیے کہ جب کوئی سفر کر رہا ہو اور اس کی کوئی منزل نہ ہو تو وہ کتنی ہی برق رفتار گاڑی میں سفر کرے وہ منزل کو کبھی نہیں پا سکتا ہے اس کے بر عکس وہ شخص جس کی منزل متعین ہو اور پیدل ہی سفر کر رہا ہو تو ایک نا ایک دن اپنی منزل کو ضرور پالیگا
اسی کے مثل
ایک طالب علم پڑھنے میں کتنا بھی تیز کیوں نا ہو اگر وہ بغیر کسی ٹارگٹ کو متعین کیے تعلیم حاصل کر رہا ہے تو وہ کبھی بھی اعلی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اس کے برعکس وہ طالب علم جو پڑھنے میں کمزور ہے حالانکہ اس کا ٹارگٹ متعین ہے تو وہ ایک نا ایک دن اپنی تعلیم سے اعلی کامیابی حاصل کرے گا۔
ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں ہر سال مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی تعداد تقریبا 12000ہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ مدارس ،مساجد سے آگے نکل کر صوبائی، ملکی یا عالمی سطح پر امت کی قیادت نہیں کر پا رہے ہیں
اس کی سب سے بڑی وجہ بغیر کسی مقصد و ہدف کے تعلیم حاصل کرنا ہے۔
طلبہ مدارس جو بغیر کسی منزل مقصود کے سفر کو جاری کر رکھا ہے اس میں غلطی کس کی ہے طلبہ کی یا پھر اساتذہ کی؟؟؟
میں تو یہی کہوں گا کہ اس میں مکمل غلطی اساتذہ کرام کی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو فقط درسیات پڑھا دینا ہی ہماری اصل ذمہ داری ہے حالانکہ یہ خام خیالی ہے کیونکہ اساتذہ کی حیثیت ایک گائڈ کی ہوتی ہے اور گائڈ جو ہوتا ہے وہ بچوں کو ہر ایک اعتبار سے نکھارتا ہے ان کو چاہیے کہ وہ طلبہ کے اندر جیسا ہنر پائیں اسی کے متعلق شوق پیدا کردیں اور اس پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مزید راہنمائی فرما دیں۔
حافظ ملت علیہ رحمۃ کے متعلق یہ بات بہت مشہور ہے کہ آپ جس بچے کے اندر جیسا ہنر پاتے اس پر اسکی حوصلہ افزائی کرتے اور اور اسی چیز کے کرنے کا حکم دیتے اور مزید مفید مشوروں سے بھی نوازتے۔
اور جب ہم اسلاف کی زندگی کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنا ایک مقصد بنایا اور پھر اپنے تعلیمی سفر کو شروع کیا اور اللہ نے ان کو ان کے مقصد میں اعلی کامیابی بھی دی
مثلا
حضرت عبد اللہ بن عباس کے بارے میں ہے کہ آپ نے دس پندرہ سال کی عمر میں طے کرلیا تھا کہ مجھے بڑا عالم بننا ہے، اس فیصلے کے تیس سال بعد وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم قرار پائے۔ صحیح رہنمائی کے لئے طالب علمی کا ابتدائی زمانہ ہی مناسب ترین وقت ہوتا ہے، لگ بھگ طالب علمی کے ابتدائی زمانے میں ہی ایک جوہر شناس دانا نے امام شافعی کے دل میں فقیہ بننے کا شوق پیدا کردیا، اور پھر زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ان کو فقہ میں امامت کا مقام حاصل ہوا۔ یہی وہ عمر ہے جب دینی مدرسہ کا ایک طالب علم اپنے تعلیمی سفر کا باقاعدہ آغاز کرتا ہے، اگر اس وقت اس کے اندر اپنی شخصیت کا ادراک اور اپنے مقام کا شعور پیدا ہوجائے۔ اس کے دل میں انسانوں کی امامت کا شوق بس جائے اور اس کے سر میں علمی فتوحات کا سودا سماجائے، تو اللہ کی توفیق سے منزل خود پتہ پوچھتی ہوئی آسکتی ہے۔ لیکن اگر تعمیر ذات کا کوئی سرا ہاتھ نہ آئے، تعلیمی سفر کے مرحلے بے شعوری کے ساتھ طے ہوں، اور شروع سے ہی بڑا بننے کا شوق دل کو بے تاب نا کرے، تو کتابوں پر کتابیں ختم ہوتی جاتی ہیں، ایک درجے سے دوسرے درجے کا سالانہ سفر بھی ہوتا رہتا ہے، مگر شخصیت میں کوئی ارتقا نہیں ہوپاتا ہے۔ انجام کار نہ مدرسوں سے رجال بن کر نکلتے ہیں، اور نہ امت کے قحط الرجال میں کچھ کمی ہوتی ہے۔
(2)احساس کمتری کا شکار ہونا بھی طلبہ مدارس کے اندر زیادہ پایا جاتا ہے ۔
اور طلبہ تین چیزوں کی وجہ سے احساس کمتری کے شکار ہو جاتے ہیں (1)اساتذہ یا طلبہ کی منفی تنقید(2)پڑھائی میں کمزور ہونے کا احساس (3)تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسباب کا نہ ہونا۔
اولا تو میں اساتذہ کرام سے گزارش کروں گا کہ اگر کوئی طالب علم کند ذہن ہے، تعلیم میں کمزور ہے تو اس کو ہر گز یہ نہ کہیں کہ تو کچھ بھی نہیں کرسکتا بلکہ اس کے حق میں دعا کریں اور اس کے چھوٹے چھوٹے تعلیمی سرگرمیوں پر حوصلہ افزائی فرماتے رہیں ۔
اور طلبہ سے یہ گزارش کروں گا کہ آپ ایسے کو دوست بنائیں جو آپ کا تعلیمی معاملے میں معاون ہوں ۔اور طلبہ کے منفی تنقید پر کان دھرے بغیر اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھتے رہیں انشا اللہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
اور جو طلبہ تعلیم میں کمزور ہوتے ہیں ان کو یہ چاہیے کہ اپنے اس کمزوری کی وجہ سے مایوس نہ ہوں بلکہ وہ اپنا ایک ہدف متعین کریں اور جہد تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں انشاء اللہ آپ ایک دن کامیاب ہو جائیں گے ۔
کیونکہ فسٹ پوزیشن حاصل کرلینا یہ کامیابی نہیں ہے بلکہ ہنر پیدا کرلینا کامیابی ہے ۔
جو لوگ مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں ان سے فقط علامہ اقبال کا یہ شعر عرض کروں گا کہ
مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر
علامہ اقبال نے اس شعر میں اس طرف راہنمائی کی ہے کہ اگر تیرے پاس فقط دو کتابیں اور ایک پنسل ہے تو مایوس نہ ہو بلکہ اسی ایک پنسل اور دو کتابوں سے نام پیدا کر ۔
اور ایک سب سی بڑی خامی جو طلبہ کے اندر پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ہم جو کچھ کریں گے وہ تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد جب جوان ہو جائیں گے ابھی ہماری وہ عمر نہیں کہ ہم انقلاب لاسکیں ۔یاد رکھیے انقلاب تدریجی طور پر آتا ہے نا کہ big bang کی طرح۔
اس لیے کہ جب ہم اپنے مقصد کو پانے کے لیے رکاٹوں کو چیلنج کرتے ہیں تو اس وقت عمر نہیں دیکھی جاتی بلکہ کامیابی کی طرف بڑھنے والے کا جزبہ و حوصلہ دیکھا جاتا ہے
کہ کمال بہ عقل است نہ کہ عمریست۔
ہمارے سامنے متعدد مثالیں ہیں کہ لوگوں نے بہت ہی کم عمر میں اپنے مقصد کو پالیا ہے
مثلا مارگ زکر برگ کا مقصد یہ تھا کہ مجھے پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر جما کرنا ہے تو اس نے سترہ سال کی عمر سے زمانہ طالب علمی میں ہی اپنے مشن پر محنت کرنے لگا اور بیس سال کی عمر میں پوری آب و تاب کے ساتھ فیس بک کو لانچ کیا ۔
لیری پیج کا ٹارگٹ یہ تھا کہ مجھے پوری دنیا کو معلومات کو جمع کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم دینا ہے تو اس نے بیس سال کی عمر میں اپنے مقصد پر محنت کرنا شروع کر دیا اور پچیس سال کی عمر میں دنیا والوں کو گوگل دے دیا ۔
اسی طرح جاوید کریم اور اسٹِو چِن نے بیس سال کی عمر میں دنیا والوں کو یو ٹیوب دے دیتے ہیں ۔
یہ لوگ اس بات کو بتا رہے ہیں کہ کامیاب ہونے کے لیے عمر کی لمٹ نہیں ہوتی بس ضرورت اس چیز کی ہوتی ہے کہ انسان کا ٹارگٹ متعین ہو اور ساتھ میں جہد مسلسل ہو تو انسان کسی بھی عمر میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
غموما ایک سوال کیا جاتا ہے کہ طلبہ مدارس کی اکثریت ممبر ومحراب تک ہی کیوں محدود رہ جاتی ہے حالانکہ عصری علوم حاصل کرنے والے دنیا کے تمام شعبہ جات میں نظر آتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟؟؟
طلبہ مدارس کی ناکامی کے پیچھے بنیادی دو سبب ہے
(1)تعلیم کو بغیر کسی مقصد کے حاصل کرنا ۔
(2)احساس کمتری کا شکار ہونا۔
حالانکہ عصری اداروں میں بچوں کے اندر یہ چیزیں بہت کم پائی جاتی ہیں ۔
(1)ایک دن کلاس میں استادِ محترم نے ہر ایک طالب علم سے فردا فردا یہ سوال کیا کہ آپ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا کریں گے؟؟
تو اس سوال پر بعض طلبہ نے یہ کہا کہ ہمیں معلوم نہیں اور بعض نے کچھ توقف کے بعد کپکپاتی ہوئی آواز میں جواب دیا ۔
مجموعی طور پر نتیجہ یہی نکلا کہ تمام لوگ بغیر کسی مقصد کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
اور یہ دو تین سال سے یہ میری عادت سی بن گئی ہے کہ جب بھی میری ملاقات کسی طلبہ مدارس سے ہوتی ہے اور اگر وہ میرے ہم عمر یا پھر چھوٹے ہیں تو ان سے یہ سوال ضرور کرتا ہوں کہ تعلیم حاصل کرلینے کے بعد آپ کیا کریں گے؟؟
تو ابھی تک اکثریت ایسے ہی طلبہ کی ملی ہے جو بغیر کسی گول کے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا ہے ۔
اور بغیر کسی ٹارگٹ کے تعلیم حاصل کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب ایک بچہ سات آٹھ سال میں اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد مدرسہ سے باہر قدم رکھتا ہے تو اس کو سوائے اندھیرے کے کچھ نظر نہیں آتا کہ :اب میں کیا کروں کدھر جاؤں؟؟
اور ایک بات یاد رکھیے کہ جب کوئی سفر کر رہا ہو اور اس کی کوئی منزل نہ ہو تو وہ کتنی ہی برق رفتار گاڑی میں سفر کرے وہ منزل کو کبھی نہیں پا سکتا ہے اس کے بر عکس وہ شخص جس کی منزل متعین ہو اور پیدل ہی سفر کر رہا ہو تو ایک نا ایک دن اپنی منزل کو ضرور پالیگا
اسی کے مثل
ایک طالب علم پڑھنے میں کتنا بھی تیز کیوں نا ہو اگر وہ بغیر کسی ٹارگٹ کو متعین کیے تعلیم حاصل کر رہا ہے تو وہ کبھی بھی اعلی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اس کے برعکس وہ طالب علم جو پڑھنے میں کمزور ہے حالانکہ اس کا ٹارگٹ متعین ہے تو وہ ایک نا ایک دن اپنی تعلیم سے اعلی کامیابی حاصل کرے گا۔
ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں ہر سال مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی تعداد تقریبا 12000ہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ مدارس ،مساجد سے آگے نکل کر صوبائی، ملکی یا عالمی سطح پر امت کی قیادت نہیں کر پا رہے ہیں
اس کی سب سے بڑی وجہ بغیر کسی مقصد و ہدف کے تعلیم حاصل کرنا ہے۔
طلبہ مدارس جو بغیر کسی منزل مقصود کے سفر کو جاری کر رکھا ہے اس میں غلطی کس کی ہے طلبہ کی یا پھر اساتذہ کی؟؟؟
میں تو یہی کہوں گا کہ اس میں مکمل غلطی اساتذہ کرام کی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو فقط درسیات پڑھا دینا ہی ہماری اصل ذمہ داری ہے حالانکہ یہ خام خیالی ہے کیونکہ اساتذہ کی حیثیت ایک گائڈ کی ہوتی ہے اور گائڈ جو ہوتا ہے وہ بچوں کو ہر ایک اعتبار سے نکھارتا ہے ان کو چاہیے کہ وہ طلبہ کے اندر جیسا ہنر پائیں اسی کے متعلق شوق پیدا کردیں اور اس پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مزید راہنمائی فرما دیں۔
حافظ ملت علیہ رحمۃ کے متعلق یہ بات بہت مشہور ہے کہ آپ جس بچے کے اندر جیسا ہنر پاتے اس پر اسکی حوصلہ افزائی کرتے اور اور اسی چیز کے کرنے کا حکم دیتے اور مزید مفید مشوروں سے بھی نوازتے۔
اور جب ہم اسلاف کی زندگی کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنا ایک مقصد بنایا اور پھر اپنے تعلیمی سفر کو شروع کیا اور اللہ نے ان کو ان کے مقصد میں اعلی کامیابی بھی دی
مثلا
حضرت عبد اللہ بن عباس کے بارے میں ہے کہ آپ نے دس پندرہ سال کی عمر میں طے کرلیا تھا کہ مجھے بڑا عالم بننا ہے، اس فیصلے کے تیس سال بعد وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم قرار پائے۔ صحیح رہنمائی کے لئے طالب علمی کا ابتدائی زمانہ ہی مناسب ترین وقت ہوتا ہے، لگ بھگ طالب علمی کے ابتدائی زمانے میں ہی ایک جوہر شناس دانا نے امام شافعی کے دل میں فقیہ بننے کا شوق پیدا کردیا، اور پھر زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ان کو فقہ میں امامت کا مقام حاصل ہوا۔ یہی وہ عمر ہے جب دینی مدرسہ کا ایک طالب علم اپنے تعلیمی سفر کا باقاعدہ آغاز کرتا ہے، اگر اس وقت اس کے اندر اپنی شخصیت کا ادراک اور اپنے مقام کا شعور پیدا ہوجائے۔ اس کے دل میں انسانوں کی امامت کا شوق بس جائے اور اس کے سر میں علمی فتوحات کا سودا سماجائے، تو اللہ کی توفیق سے منزل خود پتہ پوچھتی ہوئی آسکتی ہے۔ لیکن اگر تعمیر ذات کا کوئی سرا ہاتھ نہ آئے، تعلیمی سفر کے مرحلے بے شعوری کے ساتھ طے ہوں، اور شروع سے ہی بڑا بننے کا شوق دل کو بے تاب نا کرے، تو کتابوں پر کتابیں ختم ہوتی جاتی ہیں، ایک درجے سے دوسرے درجے کا سالانہ سفر بھی ہوتا رہتا ہے، مگر شخصیت میں کوئی ارتقا نہیں ہوپاتا ہے۔ انجام کار نہ مدرسوں سے رجال بن کر نکلتے ہیں، اور نہ امت کے قحط الرجال میں کچھ کمی ہوتی ہے۔
(2)احساس کمتری کا شکار ہونا بھی طلبہ مدارس کے اندر زیادہ پایا جاتا ہے ۔
اور طلبہ تین چیزوں کی وجہ سے احساس کمتری کے شکار ہو جاتے ہیں (1)اساتذہ یا طلبہ کی منفی تنقید(2)پڑھائی میں کمزور ہونے کا احساس (3)تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسباب کا نہ ہونا۔
اولا تو میں اساتذہ کرام سے گزارش کروں گا کہ اگر کوئی طالب علم کند ذہن ہے، تعلیم میں کمزور ہے تو اس کو ہر گز یہ نہ کہیں کہ تو کچھ بھی نہیں کرسکتا بلکہ اس کے حق میں دعا کریں اور اس کے چھوٹے چھوٹے تعلیمی سرگرمیوں پر حوصلہ افزائی فرماتے رہیں ۔
اور طلبہ سے یہ گزارش کروں گا کہ آپ ایسے کو دوست بنائیں جو آپ کا تعلیمی معاملے میں معاون ہوں ۔اور طلبہ کے منفی تنقید پر کان دھرے بغیر اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھتے رہیں انشا اللہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
اور جو طلبہ تعلیم میں کمزور ہوتے ہیں ان کو یہ چاہیے کہ اپنے اس کمزوری کی وجہ سے مایوس نہ ہوں بلکہ وہ اپنا ایک ہدف متعین کریں اور جہد تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں انشاء اللہ آپ ایک دن کامیاب ہو جائیں گے ۔
کیونکہ فسٹ پوزیشن حاصل کرلینا یہ کامیابی نہیں ہے بلکہ ہنر پیدا کرلینا کامیابی ہے ۔
جو لوگ مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں ان سے فقط علامہ اقبال کا یہ شعر عرض کروں گا کہ
مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر
علامہ اقبال نے اس شعر میں اس طرف راہنمائی کی ہے کہ اگر تیرے پاس فقط دو کتابیں اور ایک پنسل ہے تو مایوس نہ ہو بلکہ اسی ایک پنسل اور دو کتابوں سے نام پیدا کر ۔
اور ایک سب سی بڑی خامی جو طلبہ کے اندر پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ہم جو کچھ کریں گے وہ تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد جب جوان ہو جائیں گے ابھی ہماری وہ عمر نہیں کہ ہم انقلاب لاسکیں ۔یاد رکھیے انقلاب تدریجی طور پر آتا ہے نا کہ big bang کی طرح۔
اس لیے کہ جب ہم اپنے مقصد کو پانے کے لیے رکاٹوں کو چیلنج کرتے ہیں تو اس وقت عمر نہیں دیکھی جاتی بلکہ کامیابی کی طرف بڑھنے والے کا جزبہ و حوصلہ دیکھا جاتا ہے
کہ کمال بہ عقل است نہ کہ عمریست۔
ہمارے سامنے متعدد مثالیں ہیں کہ لوگوں نے بہت ہی کم عمر میں اپنے مقصد کو پالیا ہے
مثلا مارگ زکر برگ کا مقصد یہ تھا کہ مجھے پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر جما کرنا ہے تو اس نے سترہ سال کی عمر سے زمانہ طالب علمی میں ہی اپنے مشن پر محنت کرنے لگا اور بیس سال کی عمر میں پوری آب و تاب کے ساتھ فیس بک کو لانچ کیا ۔
لیری پیج کا ٹارگٹ یہ تھا کہ مجھے پوری دنیا کو معلومات کو جمع کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم دینا ہے تو اس نے بیس سال کی عمر میں اپنے مقصد پر محنت کرنا شروع کر دیا اور پچیس سال کی عمر میں دنیا والوں کو گوگل دے دیا ۔
اسی طرح جاوید کریم اور اسٹِو چِن نے بیس سال کی عمر میں دنیا والوں کو یو ٹیوب دے دیتے ہیں ۔
یہ لوگ اس بات کو بتا رہے ہیں کہ کامیاب ہونے کے لیے عمر کی لمٹ نہیں ہوتی بس ضرورت اس چیز کی ہوتی ہے کہ انسان کا ٹارگٹ متعین ہو اور ساتھ میں جہد مسلسل ہو تو انسان کسی بھی عمر میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔