I'm Ahmad Safi, I'm a student, it is my blog,through it I will present my ideology and my approach.
Friday, 31 January 2020
مسئلہ جہاد کی حساسیت و اہمیت
جہاد پر اعتراضات اور ان کے جوابات
Wednesday, 24 April 2019
Wednesday, 9 January 2019
اپنے سب سے عزیز دوست (عفان عزیزی )کے نام نصیحت نامہ۔۔۔ تمہارے دوست احمد صفی کے قلم سے ۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے،جب مدرسہ میں تمہارا پہلا سال تھا اور میرا شاید کہ تیسرا. تم دس سال کے تھے تم نے اپنی پڑھائی کا آغاز نورانی قاعدہ سے کیا تھا اور خدا کے فضل سے تم نے بہت جلد حفظ قرآن مکمل کر لیا تھا تم اس وقت اتنے چھوٹے تھے کہ لوگ دستار کے موقع تم سےجھک کر معانقہ کر رہے تھے ۔
یہاں تک کہ تم نے شعبہ عالمیت میں بھی داخلہ لے لیا
اور اپنے تعلیمی سفر میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور ہر جماعت میں اعلی پوزیشن حاصل کرتے رہے علمی مسابقہ میں ہمیشہ انعام کے مستحق قرار پائے یہاں تک کہ تم اپنی خوبیوں کی بنیاد پر طلبہ اور اساتذہ کے عزیز بن گئے ۔
لیکن 2019 نہ جانے تمہارے لیے کیا لیکر آیا کہ تم نے اپنے مادر علمی کو تعلیم مکمل ہونے سے قبل ہی ہمیشہ ہمیش کے لیے الوداع کہہ دیا ۔5جنوری 2019 کو دوپہر کا کھانا تمہارے ساتھ کھایا اور پھر سو گیا عصر کی نماز کے بعد میری نظریں تمہیں تلاشتی رہیں لیکن تم کہیں نظر نہ آئے اچانک یہ خبر سن نے کو ملی کہ تم نے ہمیشہ کے لیے جامعہ کو چھوڑ دیا ہے ۔وقتی طور پر تو دل کو جھٹکا لگا لیکن یہ سوچ کر خود کو منا لیا کہ تم نے اپنے لیے اس سے بہتر کچھ سوچا ہوگا اور اسی کے حصول کی خاطر تم نے اپنی راہ بدل لی ہے۔
اب تم کہاں جاؤ گے، کیا کرو گے، مستقبل کا تعلیمی لائحہ عمل کیا ہے؟؟ یہ تو مجھے صحیح طور پہ نہیں معلوم ۔
لیکن تمہارے اس دوست کی تم سے کچھ نصیحتیں ہیں جس کو تم میری جانب سے تحفہ بھی سمجھ سکتے ہو کیونکہ میں تم کو اس سے بہتر اور کچھ نہیں دے سکتا ۔
راستہ مشکل لگے تو بدلنا نہیں، بلکہ ان مشکلوں کے پردے کو چاک کر کے اس کے پیچھے چھپی ہوئی کامیابی کو ٹھونڈنا۔
میں تم پر کوئی زور نہیں دیتا اور نہ کوئی زبردستی کر رہا ہوں۔ جو تم بننا چاہو، بننا۔ بس جو بننا اس کی آخری مثال تم رہنا۔
تمہاری پہچان تمہاری موجودہ حالت ہو ماضی نہ ہو ۔سفر سے تھک جانا تو آرام کے لیے رکنے کہ بجائے قدموں کو نئی منزلوں کی راحتوں سے روشناس کرانا ۔
تمہارا کوئی ہو یا نہ ہو تم سب کے بننا۔تمہیں کوئی نوازے یا نہ نوازے تم سب کو عطا کرنا، اپنا ہو یا پرایا ہر ایک کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا۔
جس میدان میں بھی جانا کسی غیر کے اثر کو قبول نہ کرنا بلکہ اپنا اثر چھوڑ دینا۔
صرف اپنے ہی لوگوں سہارا نہ بننا بلکہ ہر بے کس و مجبور کا مسیحا بن جانا۔
راتوں کو آرام کا وقت نہ سمجھنا بلکہ انہیں راتوں میں ماہتاب کھینچ لانے کا ملکہ حاصل کرنا ۔
اپنے تعلیمی سفر کو ایک نصب العین بنا کر جاری رکھنا، دولت اور حسن کے مسافر نہ بننا بلکہ پوری توجہ کو علم کے حصول کے لیے مبذول کرنا کیوں کہ علم میں مہارت حاصل کرلوگے تو یہ تمام چیزیں تمہاری بارگاہ کی باندی ہوں۔
یہ کچھ ٹوٹے پھوٹے کلمات تھے باقی میری دعا یہی ہے کہ اللہ تم کو تمہارے مقصد میں کامیاب کرے جہاں جاؤ وہاں روشنی لٹاؤ ۔
جو خوشی تمھارے قریب ہو ، وہ صدا تمھارے نصیب ہو
تجھے وہ خلوص ملے کہ جو، تیری زندگی پہ محیط ہو
تیری زندگی جو طلب کرے، تیرے ہمسفر کا وہ رنگ ہو
تیرے ہاتھ اٹھتے ہی یک بیک، تیرے آگے اسکی تعبیر ہو
جہاں روشنی ہو خلوص کی ، اور نفرتوں کی خبر نہ ہو۔
Sunday, 28 October 2018
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں ۔
خانقاہ عارفیہ کا صاحب سجادہ مدرسہ عارفیہ کا بانی ہوں۔
مسلکا سنی حنفی، مشربا چشتی ،قادری،نقشبندی، سہروردی اور نسبا عثمانی ہوں اور ان سب سے پہلے محمدی ہوں۔صوفیاء کی روایات کا پاسبان اور اسلام کا داعی ہوں۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے امت مسلمہ کے بکھرتے ہوئے شیرازہ کو دیکھا تو کڑھن محسوس کی کہ آج ہر شخص اپنے گروہ کا داعی بنا ہوا ہے، مدارس جو دین کے قلعے تھے وہاں پر اپنے فرقہ کی تعلیم دی جا رہی ہے، فروعی اختلافات پر جنگ و جدل کا عجب ماحول بنا ہوا ہے کوئی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے، صوفیا کرام کی تعلیمات پر قدغن لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تصوف کو اسلام کا مغایر قرار دیا جارہا ہے ۔تو میں نے اس کڑھن کے سد باب کے لیے اور امت کو ایک مرکز پر لانے کے لیے پیش رفت کی اور جامعہ عارفیہ کی بنیاد ڈالی لیکن قائدین وقت نے میرے آگے بڑھنے کے راستوں کو مسدود کرنے کی بہت کوششیں کیں کہ کہیں ہماری قیادت نہ چلی جائے لیکن میں نے ان کی مخالفت پر کان دھرے بغیر آگے بڑھتا رہا کیونکہ مجھے فکر تھی اپنی قوم کی جو بے سہارا تھی اور ٹکٹکی باندھے منتظر تھی کہ کوئی مسیحا آئے ہماری کشتی کو اس بھنور سے نکالے ۔میری مخالفت ہوتی رہی لیکن میں آگے بڑھتا ہی رہا ۔
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے اپنے دعوتی مشن کا آغاز فرد سے کیا میں نے فرد کی ذہنیت کو بدلنے کی کوشش کی کیونکہ میں جانتا تھا جب فرد کی ذہنیت بدلے گی تو آہستہ آہستہ افراد کی حد تک انقلاب آئے گا اور جب افراد میں انقلاب آئے گا تو قوم بدلے گی۔تبھی مجھے ایک چیز سمجھ میں آگئی کہ آخر لوگ تعمیری میدان میں کیوں کام کرنا نہیں چاہتے؟؟ وہ صرف اس لیے کہ تعمیری کام کرنا ایک انتہائی خاموش کام ہے اس میں آدمی کو کام زیادہ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ بہت کم ملتا ہے یعنی یہ کام ایسا ہے کہ قوم کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے اس کی بنیاد میں دفن ہو جانا ہے اس کام کی یہی مشکل نوعیت ہے جس کی بنا پر شہرت پسند افراد اس میدان میں محنت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔
لیکن میں نے اللہ کی رضا کے لیے تعمیری کردار ادا کرنا شروع کریا ۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ لوگ دوسروں کے ساتھ اختلافی مسائل میں الجھ کر تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں حالانکہ زمانہ نے مجھے یہ تجربہ دیا ہے کہ انسان بیک وقت دو محاذ پر اپنی قوت صرف نہیں کر سکتا ہے اگر وہ نزاع میں الجھے گا تو تعمیری کام رک جائے گا اور اگر تعمیری کام میں مصروف ہوگا تو اسے نزاع کے میدان کو چھوڑنا پڑے گا ۔
اور میں ایسے موڑ پر کھڑا تھا کہ ایک طرف لوگ مجھے نزاع میں الجھانے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف میں تعمیری کام کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے مخالفت میں الجھے بغیر تعمیری کام کی طرف اپنی توجہ کو مبذول کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج میرے ساتھ باصلاحیت علماء کی ایک جماعت ہے جو میرے مشن کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ آج میرا قائم کیا ہوا ادارہ اپنی منفرد پہچان بنا چکا ہے ۔جس کا الحاق جامع ازہر مصر اور جامعہ مصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی ایران سے ہے جہاں پر طلبہ عارفیہ اپنی علمی تشنگی کو بجھا رہے ہیں ۔اور دیگر عصری اداروں سے بھی معادلہ ہو چکا ہے ۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں اور زندہ قوم کا بیٹا ہوں اس لیے میں مقاصد کو اہمیت دیتا ہوں، حال میں جیتا ہوں ماضی پہ شکوے نہیں کرتا، تنقید کا استقبال کرتا ہوں، عسر کی زمین پر یسر کی کھیتی کرتا ہوں، حقیقی ایشو پر آواز بلند کرتا ہوں نہ کہ دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہتا ہوں۔۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے تصوف پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا ،جس نے تعلیمات صوفیاء کو عام کرنے کے لیے ماہنامہ خضر راہ اور سالنامہ الاحسان کو جاری کیا تعلیمات تصوف کا نایاب فارسی متن مجمع السلوک (شیخ سعد الدین خیرآبادی) کو اردو میں ترجمہ کروایا جو کہ تعلیمات صوفیا کے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
قریب ہے کہ زمانہ ٹھر کر بولے گا
کہ یہ فقیر تو قبضہ جہاں پہ رکھتا ہے
#احمدصفی
Tuesday, 4 September 2018
ناچیز کو داعی اسلام کی نصیحت
بیٹا! نفس پہ جو شاق گذرے وہ سالک کے لیے معراج ہے، انا کو جہاں ٹھیس پہنچے وہیں مقام بندگی ہے اور مقام بندگی ہی سے قرب کا راستہ ملتا ہے ‘’ تقرب ہے مقصود و مطلوبِ مومن’’
Sunday, 12 August 2018
مجھے سیاست داں بننا ہے
عزیز بیٹی ملالہ
عزیز بیٹی ملالہ سلامت رہو امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہ...

-
طلبہ مدارس بھی تھوڑا سا گلہ سن لیں تحریر ۔احمد صفی میں جانتا ہوں کہ میری اس تحریر سے طلبہ مدارس کو تکلیف ہوگی لیکن میں پیشگی معزرت چاہتا ہ...
-
اسلامی ریاست جب مکمل طور سے وجود میں آگئی اور اسلام پہلے کی بنسبت کافی تیزی سے پھیلنے لگا یہاں تک کہ بڑے بڑے علاقے اور ملکوں پر اسلام کا پر...
-
تحریر ۔احمد صفی اسلام کی پوری تاریخ میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس میں کسی نے مسلک اہل سنت کو کسی ایک ذات کی طرف منسوب کیا ہو۔ ت...