Thursday, 21 June 2018

سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داری

تحریر ۔احمد صفی

یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، سوشل میڈیا کا مقصد اس کائنات میں بسنے والے تمام انسانوں کو ایک دوسر ے سے قریب لانا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے جڑ سکیں، آپس میں خوشیاں بانٹ سکیں، ایک دوسرے کے افکار و خیالات سے استفادہ کرسکیں، ایک صحتمند ڈیبیٹ کا ماحول پیدا ہو تاکہ انسانی صلاحیتوں میں نکھار آئے، اچھے خیالات ideas  سامنے آئیں اور پھر ہم خیال افراد کی ایک لڑی بنے جو ایک دوسری کے مددگار بن سکیں،
اسی لیے اکثر سوشل میڈیا سائٹس میں لائک کا آپشن تو ہوتا ہے لیکن انلائک کا نہیں ہوتا کیوں؟؟ وہ اس لیے کہ محبت عام اور نفرت کا خاتمہ ہو. اور مزید بلاک کا بھی آپشن ہوتا ہے وہ کس لیے؟؟ صرف اس لیے کہ اگر کوئی نفرت پھیلا رہا ہے ہتک آمیز پوسٹ لگا رہا ہے تو آپ بلاک کا آپشن استعمال کرکے اس کے منفی رویہ سے بچ سکتے ہیں ۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج  اسلام پسند طبقہ کی اکثریت سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ تر اپنے نظریاتی مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے کر رہی ہے ۔
اکثر  جب کسی کو کسی کے نظریہ سے اتفاق نہیں ہوتا تو اسے ٹرول troll کیا جاتا ہے،  انتہائی سخت اور سستے تبصرے کئے جاتے ہیں ، نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ، گالیاں دی جاتی ہیں، غیر تو غیر اپنوں کی بھی دل آزاری کی جاتی ہے جو کہ  سوشل میڈیا کے مقاصد کے بالکل برعکس ہے ، حالانکہ اگر شوشل میڈیا پر کسی کو  کسی کی پوسٹ پسند نہ آئے تو اسے بآسانی نظر انداز کرکے آگے بڑھا جاسکتا ہے یا اگر کسی نظریہ سے اتفاق نہ ہو تو وقار کے ساتھ اسکا علمی انداز میں جواب دیا جاسکتا ہے یا اپنے وال پر اسکی تردید کی جاسکتی ہے ہمیں خیال رہنا چاہئے کہ سوشل میڈیا دل آزاری کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ رشتوں کو بنانے، ایک دوسرے کے افکار ونظریات سے فائدہ اٹھانے، مثبت اقدار کو بڑھاوا دینے، معلومات کو نشر کرنے اور صحتمند گفتگو کیلئے ہے تاکہ دنیا امن وسکون کا گہوارہ بن سکے۔
لیکن یہاں پر معاملہ بلکل بر عکس ہو چکا ہے کہ اس امر میں اس قدر غلو کر چکے ہیں کہ فیک آئڈیز کا استعمال کرکے نفرت کی بیج بو رہے ہیں ۔
اعلی شخصیات کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر قابل اعتراض پوسٹیں لگا رہے ہیں جو کہ افتراق وانتشار کا سبب بنتا نظر آرہا ہے۔
شکیلہ شیخ جو کہ فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کی رکن ہیں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں فیس بک ویکیپیڈیا کے حوالے سے ایک بات لکھی تھی کہ ہند وپاک سے 2017میں ایف آئی اے سائبر کرائم کو 30000سے زائد فیس بک آئڈیز کی شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 50% شکایات ان اکانٹس کی تھیں جن کا استعمال مذہبی لڑائی کے لیے کیا جاتا ہے ۔
اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی کتنے پیچھے ہیں جب کہ اغیار نے اس کا استعمال نفرت و انتشار پھیلانے کے بجائے اپنے مذہب و نظریات کی ترویج کے لئے کر رہے اور وہ اپنے اس مشن کامیاب ہو رہے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی دنیا ایک مصنوعی دنیا ہے لہذا اسے اسی حد تک رکھنا چاہئے جس سے ہماری حقیقی زندگی اور رشتے متاثر نا ہوں۔
اس کو ہمیں اسلام اور اپنی قوم کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔
اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کہ فیس بک پر بحث و مباحثہ جیسی فضولیات میں ایسے ایسے افراد شامل ہیں جو کہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں جو کہ بہت بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہیں ۔لیکن وہ اپنے وقت کو چند سطری تحریروں اور اس پر کمنٹ کے پیچھے ضائع کر رہے ہیں۔
ایک بات یاد رکھیے فیس بک اخبار کے مانند ہے یہاں پر لکھی تحریروں کی اہمیت صرف ایک دن کی ہے پھر ان کا ہونا نا ہونے کی طرح ہے ۔
اور ایک قول بہت مشہور ہے کہ کاتب ہمیشہ زندہ رہتا ہے لیکن وہ سوشل میڈیا والا نہیں بلکہ کتابوں والا زندہ رہتا ہے ۔
اس لیے ا س ناچیز کی گزارش ہے کہ ہم پروجیکٹ کے طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ اس سے آنے والی نسل کو فائدہ ہو ورنہ سوشل میڈیا پر تحریریں آئیں گی جائیں گی فائدہ کچھ بھی نہ ہوگا ۔

مسلک اعلی حضرت کہنا کیسا ؟؟؟


تحریر ۔احمد صفی
اسلام کی پوری تاریخ میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس میں کسی نے مسلک اہل سنت کو کسی ایک ذات کی طرف منسوب کیا ہو۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب جب لوگوں نے عقائد اہل سنت سے انحراف کیا تو ہمارے اسلاف نے کسی بھی شخص کو مابہ الامتیاز کا درجہ نہیں دیا بلکہ ان کا رد بلیغ کیا اور کسی کو معتزلی کہا تو کسی کو خوارج وغیرہ کہا اور ان کو اہل سنت والجماعت سے ہمیشہ خارج مانا۔
اور مجدد دین و ملت نے جن عقائد کی ترویج اشاعت کی وہ سواد اعظم کے عقائد تھے ۔
اور آج  مسلک اعلٰی حضرت کہنے پر اس قدر زور دیا جارہا جس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کے جواز پر نقلی و عقلی دلائل کا انبار موجود ہیں ۔
حالانکہ ابھی اس کے جواز پر نقلی دلائل تو نہیں ملے لیکن کچھ عقلی دلیلیں ہیں اور  وہ بھی اعتراض کی زد میں ہیں ۔
مثلا پہلی دلیل ۔یہ ہے کہ مسلک اعلی حضرت اس لیے کہتے ہیں کہ آج کچھ فرقہ باطلہ نے خود کو اہل سنت والجماعت سے موسوم کرنا شروع کردیا ہے اس لیے خود کو ان سے ممتاز کرنے کے لیے مسلک اعلی حضرت کا استعمال کرتے ہیں ۔
اس دلیل کا جواب ایک سوال ہے وہ یہ کہ اگر کوئی شخص آپ کے گھر میں رہنے کے لیے بضد ہو جائے اور دعوی کرنے لگے کہ یہ میرا گھر ہے: تو کیا آپ اپنا گھر خالی کرکے اس کو دے دیں گے اور دوسرا گھر رہنے کے لیے لے لیں گے؟ نہیں
لیکن ہم لوگوں نے ان کے لیے مزید راہ ہموار کردی کہ چلو آپ استعمال کر رہے ہیں تو کیجیے اور ہم خود کو آپ سے ممتاز کرنے کے لیے اس کا مرادف لفظ استعمال کر لیں گے.
اس بات سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ نے ان کو اہل سنت والجماعت سے مان لیا ہے تبھی تو خود کو ان سے ممتاز کرنے لیے دوسرا لفظ وضع کرلیا ہے۔
دوسری  دلیل ترادف ہے ۔
یہاں پر  استاد محترم مولانا ذیشان مصباحی صاحب کی بات نقل کرتا ہوں
((معاصر علماے اہل سنت میں بہت سے ایسے اہل علم ہیں جو مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کے مترادف سمجھتے ہیں، ان کے باطنی اخلاص اور ظاہری مصلحت سے قطع نظر یہ بات حقیقت کی سطح پر درست نہیں۔ مزید یہ کہ ایسے حضرات کو ہمیشہ ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت پے، کہ مبادا کبھی اعلی حضرت سے کسی مسئلے میں اختلاف کیا اور سنیت سے باہر گئے.
مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کا مترادف قرار دینے سے تو خود اعلی حضرت بھی سنی نہیں رہتے، کیوں کہ انہوں نے متعدد مسائل میں اپنے سے مختلف الخیال علما کو اہل سنت شمار کیا ہے.
بعض احباب اس پر یہ کہتے ہیں کہ ترادف کے قول پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے یہ غور کرنا چاہیے کہ قائلین ترادف کی ترادف سے مراد کیا ہے؟ کیوں کہ ترادف کے قائلین کے درمیان اس بات پر کافی اختلاف پایا جاتا ہے کہ آخر مسلک اعلی حضرت کس اعتبار سے مسلک اہل سنت کا مترادف ہے، عقائد و فروع دونوں میں مترادف ہے یا صرف عقائد میں؟ اس لیے ترادف کے انکار کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ یہ انکار کس جہت سے اور کن کے اعتبار سے ہے؟
اس پر عرض ہے کہ ترادف تو کلی یکسانیت کو ہی کہتے ہیں، جزوی یکسانیت ترادف نہیں کہی جاتی.
رہا یہ نکتہ کہ مسلک اعلی حضرت صرف عقائد کے معاملے میں مسلک اہل سنت کے مترادف ہے، تو یہ بات بھی قابل غور ہے، کیوں کہ عقائد کی تین سطحیں ہیں:
۱:  عقائد دین، اس سطح پر تو تمام اہل قبلہ کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف ہے.
:۲ عقائد اہل سنت، اس سطح پر تو تمام سنی علما کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف ہے.
۳: عقائد فروع، اس سطح پر تو کسی بھی سنی عالم کا مسلک مسلک اہل سنت کے مترادف نہیں.
بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقائد کی دوسری سطح کے لحاظ سے اگر کوئی مسلک اعلی حضرت کو مسلک اہل سنت کے مترادف کہے تو اس میں کیا خرابی ہے؟
جواباً عرض ہے کہ اس میں دو خرابیاں ہیں:
۱- یہ جزوی یکسانیت ہوئی، جس سے ترادف ثابت نہیں ہوتا.
۲- اور بالفرض اسے ترادف مان بھی لیجیے تو اس میں مسلک اعلی حضرت کی کیا تخصیص؟ اس سطح کے لحاظ سے تو ہر سنی عالم کا مسلک مسلک اہل سنت کا مترادف ہے۔))))
اور اس ترادف پر ایک سوال یہ بھی وارد ہوتا ہے کہ یہ اہل ہند کے لیے ہے یا پھر پوری دنیا والوں کے لیے ؟؟؟
اب مسلک اعلی حضرت کہنے میں خرابی کیا لازم آئیں گی وہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
*سواد اعظم کے بحر بیکراں کو محدود کرنا لازم آئے گا۔
*مسلک اہل سنت والجماعت جو کہ ایک عالمگیر اور پندرہ سو سال سے قائم ایک مستقل پہچان ہے اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہے اور دور نبی سے لیکر موجودہ زمانے تک سواد اعظم کے لیے عرب و عجم میں مستعمل ہے اس سے انحراف لازم آئے گا ۔
*معترضین یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ مسلک تو ایک صدی پہلے کی ایجاد ہے ۔
وغیرھم ذالک۔
آخری بات.
یہ کہ ما بہ الامتیاز کی اصطلاح اسی وقت استعمال کی جا سکتی ہے جب کہ مشبہ و مشبہ بہ وجہ شبہ میں من کل الوجوہ مشترک ہوں اور ان دونوں میں تمیز کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو دونوں میں فرق پیدا کرنے کے لئے کسی وصف زائد کو ما بہ الامتیاز کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔۔حالانکہ اہل سنت کے مقابلے میں تمام فرقہ باطلہ کے عقائد و نظریات اظہر من الشمس ہیں کہ وہ باطل ہیں اور اگر وہ لوگ اپنے تمام عقائد و نظریات کو اہل سنت کے عقائد سے موسوم کر رہے ہیں تو اس بنا پر پورے اہل سنت والجماعت کو ایک شخصیت کے تابع کر دینا اور اصل نام کو چھوڑ کر کسی طاویلی نام کا استعمال کرنا یہ کہاں کی دانائی ہے ۔جب کہ قرآن کے کی یہ ایت (جاء الحق و زھق الباطل )قوم مسلم کو یہ فکر دے رہی ہے کہ حق کی باطل پر فتح ہوئی اب اگر باطل حق کے مقابلے میں ظاہرا آئے یا پھر حق کے لبادہ میں ملبوس ہو کر  آئے وہ باطل ہے تو باطل ہے۔ اس باطل کی وجہ سے ہم اپنی اصل پہچان کو نہیں چھوڑ سکتے ورنہ ہم باطل کو حق پر ترجیح دینے والے ہوں گے۔۔۔۔۔اور تمام فرقہ باطلہ کا لفظ اہل سنت کو استعمال کرنا یہ اہل سنت والجماعت سے من کل الوجوہ مشارکت نہیں ہے ہاں اگر من کل الوجوہ مشارکت ہوتی تب کسی زائد وصف کا قصد کیا جاتا

واللہ اعلم بالصواب 

Wednesday, 20 June 2018

آخر ہم سے غلطی ہوئی کہاں؟؟

جماعت کے تکفیری رجحان اور اسالیب دعوت سے نا آشانائی کے نقصانات پر ایک چشم کشا تحریر
تحریر۔احمد صفی

سفر کا تھکا ہارا مسافر خواب خرگوش کا لطف کے رہا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی کراہیت کے ساتھ فون اٹھایا علیک سلیک کے بعد انجناب عرض گزار ہوے کہ مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ آپ لکھنؤ تشریف لائے ہوئے ہیں .میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے پوچھا آپ کون؟ تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کا دوست زریاب ندوی بول رہا ہوں خیر تعارف کے بعد انہوں نے کہا کہ حضرت میرے فون کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ ندوہ تشریف لائیں اس لئے کہ یہ میری دیرینہ خواہش تھی کہ میں آپ کو اپنے مادر علمی آنے کی دعوت دوں۔اتنا سنتے ہی میں خاموش ہوگیا اور کچھ توقف کے بعد میں نے کہا کچھ وقفے کے بعد آپ کو جواب دیتا ہوں ۔اب اس فون نے تو میری نیند ہی اڑا دی اور میں یہ سوچنے لگا کہ اگر دعوت کو ٹھکراتا ہوں تو ایک عزیز دوست خفا ہوتا ہے اور اگر وہاں جاتا ہوں تو اپنی ذات کو اپنے ہم فکروں کے درمیان مشکوک کرتا ہوں خیر میں نے جانے کو ترجیح دیا صرف  اس جمود گی کو توڑتے ہوئے  جو کہ آج ہمارے معاشرے میں یہ عقیدہ سا بن چکا ہے کہ اسلام کے دیگر فرق کے لوگوں سے ملنا حرام ہے۔
اور ایسی فکر کی ترویج واشاعت کے پیچھے رندوں کے علاوہ میخانے کا ساقی بھی نظر آتا ہے۔
خیر اسلام کے دیگر مکاتب فکر کے لوگوں ملنا جائز ہے یا ناجائز؟ کن صورتوں میں مل سکتے ہیں یا کن صورتوں میں نہیں مل سکتے ؟کون مل سکتا ہے کون نہیں مل سکتا ؟یہ ایک الگ بحث ہے۔
اور میں نے ندوہ جانے کو جو ترجیح دیا اس کی دوسری وجہ اس تاریخی ادارہ کو دیکھنا اور کچھ کتابیں لینی تھیں ۔
خیر دوسرے دن میں اور میرے دو دوست صبح دس بجے ندوہ کی جانب پا بہ رکاب ہوگئے اور ہم لوگ جیسے ہی ندوہ پہنچے ان سے باہر ہی ملاقات ہو گئی شاید کہ وہ باہر ہمارا ہی انتظار کر رہے تھے ۔انہوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے مصافحہ و معانقہ کیا اور ہم کو اپنے روم پر لے گئے  شاندار میزبانی کی ، پورے ندوا کا معائنہ بھی کروایا اور باتیں بھی ہوتی رہیں دوران گفتگو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے یہاں کسی کی تکفیر کی جاتی ہے؟ کسی پر گمراہ و بدعقیدگی کا فتویٰ صادر کیا جاتا ہے؟ عوام کو اس گمراہ شخص کے خلاف برانگیختہ کیا جاتا ہے؟؟
تو انہوں نے مسکراتے ہوے جواب دیا جی ہم لوگوں کے یہاں بھی غلطیوں پر گرفت کی جاتی ہے ۔لیکن اولا اس کے حق میں کوئی قطعی حکم صادر نہیں کیا جاتا بلکہ جس شخص سے غلطی ہوئی ہے، یا ایسے کلمات صادر ہوے ہیں جو کہ شرع سے متصادم ہیں تو یہاں کے کچھ ارباب اہل حل و عقد اس سے رابطہ کرتے ہیں اور حقیقت حال سے واقف ہوتے ہیں اگر اس نے واقعی ایسی خطا کی ہیں یا ایسے اقوال صادر ہوئے ہیں جو کہ از روے شرع غلط ہیں تو چار پانچ افراد پر مشتمل مجلس میں دلائل کے روشنی کے ساتھ اس کو توبہ کرنے کی تلقین کی جاتی اور اکثر  خاطی شخص بخوشی توبہ کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔
اتنا سننے کے بعد میرے ذہن میں اہل سنت و الجماعت کی موجودہ صورت حال گردش کرنے لگی کہ آج ہمارے یہاں کوئی غلطی کرتا ہے ،یا اس کا نظریہ اسلام سے مختلف ہو جاتا ہے یا اس سے ایسے اقوال سرزد ہو جاتے ہیں جو کہ شریعت کے عمومی مزاج سے ہم آہنگ نہ ہوں تو اس کے ساتھ "جادلھم بالتی ھی احسن"کے رویہ کو اپنانے کے بجائے اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس سے رابطہ کرکے حقیقت حال سے واقف ہونے کے بجائے فقط سنی سنائی باتوں پر فتوے صادر کیے جاتے ہی،  اس کے خلاف کتابچے چھپواے جاتے ہیں ،عوام کو اس کے خلاف بد ظن کیا جاتا ہے، اپنے اسٹیجوں پر اس کی ذات کو مجروح کیا جاتا ہے، اس کے نسب پر حملے کئے جاتے ہیں، اس کے عقائد و نظریات کا فیصل عوام کو بنایا جاتا ہے، معاشرے میں اس سے ملنے جلنے کو حرام قرار دیا جاتا ہے، اس کے اقوال میں تاویلات کے تمام دروازے بند کرکے فقط ظاہری مفہوم کو لیکر گمراہ و بدعقیدگی سے کفر تک کا سفر کرا دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ اور ان تمام چیزوں کا نتیجہ کچھ یوں نکل رہا ہے کہ ایک پر سکون معاشرہ اختلاف کی آماجگاہ بنتا نظر آرہا ہے ۔وہ شخص اصلاح وہدایت سے قریب ہونے کے بجائے اور دور ہوتا نظر آرہا ہے ۔
درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔
یہ تو سکے کا ایک رخ تھا آئیے دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں
وہ یہ کہ میرے ذہن میں کافی دنوں سےایک سوال تھا کہ  آخر کیا وجہ ہے کہ گمراہوں کے عقائد و نظریات سے عوام اتنی کثرت سے متاثر ہو رہی ہے؟؟

اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے عقائد ونظریات کے تبلیغ و اشاعت کے لئے ایک منظم طریقے سے زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں ۔ اپنی قوت اور پیسوں کو جلسے، محافل و اعراس میں اور کسی کے خلاف کتابوں کو چھپوانے میں صرف کرنے کے بجائے اپنے رقبہ کو بڑھانے ۔معاشرے کی اصلاح اور لوگوں کی فلاح و بہبودگی کے لئے خرچ کررہے ہیں۔
اب اسی عنوان کی مناسبت سےایک اور بات عرض کروں وہ یہ کہ
جب ندوہ کی تحریک چلی تو ہم نے اس کے رد پر کتابیں لکھیں تقاریریں کیں لیکن  اس کےبرابر کا ادارہ نہ قائم کرسکے۔
اور اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے خلاف بھی ہم نے تحریرو تقریری طور پر خوب معرکہ آرائی کی لیکن وہ جانب منزل گامزن ہی رہا۔لیکن ہمارے یہاں سوائے اشرفیہ کے علاوہ کوئی ادارہ نہ قائم ہو سکا۔
اسی طرح ہم نے وحید الدین خان اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے لیٹریچر اور ترجموں کو پڑھنے اور سننے سے لوگوں کو منع تو کردیا لیکن ہمارے پاس عوام کو دینے کے لئے  قیل و قال رد و ابطال کے مباحث کے علاوہ کچھ نہ تھا نتیجہ کیا نکلا کہ عوام ان سے متاثر ہوتی چلی گئی ۔
اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے خلاف ہم نے کتابیں لکھیں ان کے خلاف مفت کتابچے تقسیم کئے گئے ان کے رد پرجلسے جلوس میں عوام کا لاکھوں روپئے پانی کی طرح بہایا گیا۔لیکن فائدہ کچھ نظر نہ آیا بلکہ ان کی قائم کردہ تنظیم منہاج القرآن عالمی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی ہے، انہوں نے مختلف شعبہ ذات تعلیمی ادارے قائم کئے جس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ وہاں کی سندوں کو سرکاری سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے فاتحہ سے لیکر دہشت گردی کے خاتمے تک مختلف عنوان پر کتابیں لکھیں ان میں سے درجنوں کتابوں کو بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے داخل نصاب کیا۔اور مختلف عنوان پر خطبات بھی دئے جس کو سن کر مخالفین بھی اپنی روٹیاں چلا رہے ہیں اور ہمارے یہاں کوئی ایسا ادارہ یا تنظیم نظر ہی نہیں آتی جو منہاج القرآن کے مساوی ہو۔لیکن ہم لوگ فقط مخالفت کرتے رہے۔اور ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات سے غافل عوام کو مسلکی قیل و قال سکھاتے رہے۔لیکن اغیار نرمی و اخوت اور اعتدال کے ساتھ جدید اسلوب میں اپنے نظریے کی تشہیر و تبلیغ کرتے رہے۔اور ہم لوگ زمینی سطح پر کام کرنے کے بجائے فقط تحریرو تقریر سے ہر معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتے رہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اغیار کی پوزیشن اقدامی رہی اورہماری دفاعی ۔
مجدد الف ثانی علیہ رحمہ نے کہا تھا کہ اگر تم باطل تحریک کو مٹانا چاہتے ہو تو اس کے مساوی تم بھی ایک نئی تحریک چلا دو وہ بغیر رد کئے ہوے مٹ جائے گی انہوں نے بطور نظیر ایک واقعہ بھی بیان فرمایا کہ جب اکبر کے عہد میں دین الہی کی شکل میں ایک صلح کل مذہب وجود میں آیا تو علما اہل حق نے مناظرے سے کہیں زیادہ اسلام کی خالص تعلیم کو عام کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین الہی فقط تاریخ کا قصہ پارینہ بن گیا۔ ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ
میدان جنگ میں مخالف کی چالوں کو سمجھ لینے سے فتح کی گیند ۵۰%آپ کے پالے میں آجاتی  ہے۔
حضرت علامہ خوشتر نورانی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اہل سنت وجماعت کی ترقی پر بات کرتے ہوئے چند سوال قائم کئے تھے ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج اہل سنت وجماعت کی پوزیشن اقدامی نہ رہی بلکہ دفاعی ہو گئی؟؟
اس ناچیز طالب علم نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
کسی بھی ملک کی حفاظت کے لئے سپاہیوں کے ایک دستہ کا خارجی محاذ پر نبرد آزما ہونا ضروری ہے۔تو وہیں پر ایک اور دستے کا ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لئے داخلی محاذ پر مورچہ سنبھالنا ضروری ہے۔اور فقط کسی ایک محاذ پر بر سر پیکار ہونے سے ملک کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔
اس طرح اہل سنت و جماعت پر ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب کہ احقاق حق ابطال باطل کے زعم میں مناظرے کی محفلیں شباب پر تھیں، رد پر کتابوں کے لکھنے کا اور تقریریں کرنے کا سلسلہ دراز تھا عوام کی فکری ژولیدگی بڑھتی ہی جا رہی تھی اور منفی کے علاوہ مثبت نتیجہ نظر ہی نہیں آرہا تھا اور اسی رد و ابطال کو ہی دین کے تبلیغ کا ذریعہ سمجھ لیا گیا تھا،اور اس رد و ابطال کی جنگ میں زیر و زبر سبھی شامل تھے،اور امت کی اور دیگر حاجتوں کو پس پشت ڈال کر مکمل ارتکاز رد و ابطال پرتھا۔اور ہنوز ایسی رمق باقی ہے۔
لیکن وہیں پر ہمارے مخالفوں نے اپنے علماء کو الگ الگ محاذ پر لگا دیا تھا، کہ ایک جماعت مناظرہ کرے گی تو ایک جماعت علمی میدان میں اپنے گھوڑوں کو دوڑائے گی، تو وہیں پر ایک دستہ سیاست کے میدان میں اپنا لوہا منوائے گا، تو وہیں پر ایک جتھہ لوگوں کی اصلاح کے لئے گھر گھر جاکر ان تک اپنا پیغام پہنچائے گا، وغیرہ وغیرہ۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم لوگ ان کا شد ومد کے ساتھ امت کے دیگر مسائل کو بھلا کر ان کا دفاع ہی کرتے رہے، اور وہ لوگ ترقی کی منزلیں طے کرتے رہےجس کی وجہ سے آج اگر کسی خالص سنی لائبریری کا جائزہ لیا جائے تو رد و ابطال پر لکھی گئی کتابوں کی بھر مار ہوگی لیکن اگر وہیں پر دیوبندی یا وہابیوں وغیرھم کے کتب خانوں کو چھانا جائے تو ہر ایک فن پر کتابوں کے الگ الگ ڈپارٹ ہوں گے۔آج غیروں کی اسی چال کا نتیجہ ہے کہ انکی کثرت دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔اور یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے آج اہل سنت وجماعت دفاعی مورچے پر ہے اور اغیار اقدامی محاذ پر۔
اور آئیے دیکھتے ہیں وہ کیسے؟ اس کو بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
سیاسی میدان میں ہمارا کوئی آدمی نظر نہیں آتا لیکن انکی کثرت موجود ہے۔

اغیار جب چاہتے ہیں صدر  اور وزیر اعظم سے براہ راست ملاقات کرتے ہیں، لیکن کوئی ایک سنی عالم ایسا ہے جو براہ راست صدر یا وزیر اعظم سے مل سکے۔
حالات کےتقاضوں کے مطابق اغیار قرآن مقدس کے سائنسی پہلو، حدیث شریف میں موجود سیاسی و سماجی، معاشرتی و  فلاحی فرامین کو سپرد قرطاس  کر رہے ہیں جب کہ ہماری کتب کے عنوانات آج بھی قبر کے بچھو، گنجے سانپ، ابلیس کا رقص، ایک دوسرے کی نقاب کشائی،  خنجر بر گردن فلاں وغیرہ وغیرہ ہیں۔
اغیار کے مدارس میں اساتذہ کی تنخواہیں ہماری نسبت بہت اچھی ہیں، ہمارے اساتذہ آج بھی پانچ سے دس ہزار پر کیوں  گزارا کر ہے ہیں جب کہ کسی کے خلاف کتابیں لکھوانے اور جلسے جلوس کروانے میں بے دریغ خطری رقم کو پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے ۔

اور ان تمام چیزوں میں غیروں کی شکایت نہیں اپنی ہی خطا ہے
اور وہ خطا کیا ہے اسے بھی ملاحظہ فرمائیں
(۱)نظریاتی اختلاف تو ہونا فطری ہے کیونکہ اسی اختلاف کے بارے میں حدیث شاہد ہے کہ اختلاف امتی رحمۃ۔لیکن آج ہم نے نظریاتی اختلاف کو حل کرنے کے لئےطعن تشنیع، گالی و گلوچ اور علمی کبریائی کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہےاور اس پر مستزاد یہ کہ جو ہمارے نظریے کی موافقت کرتے ہوئے ہمارے مخالف پر گالی گلوچ کرتا ہے تو اس کے فعل کے جواز پر قرآن حدیث اور اقوال صحابہ سے دلیل قائم کرتے ہوئے اپنی جماعت کا علامہ قرار دیتے ہیں اور اس کو شیر فلاں جیسے القاب سے ملقب کردیتے ہیں ۔جو کہ دین کے اتحاد کو دیمک کی طرح پارہ پارہ کررہا ہے۔اور حالانکہ ان مسائل کو حل کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ طعن و تشنیع کرنے کے بجائے عالمانہ اور محققانہ انداز میں گفتگو کی جائے ۔
(۲)آج ہم نے حق پہچاننے کا معیار کتاب و سنت کو بنانے کے بجائے شخصیات کو بنا لیا ہے۔جس کا منفی نتیجہ یہ ظاہر ہو رہا کہ اس شخص سے اختلاف کو صغری و کبری فٹ کرکے اسلام سے اختلاف قرار دیا جا رہا ہے ۔اور حالانکہ قرآن نے اس نظریے کو سرے سے مسترد کیا ہے کہ اللہ نے فرمایا "اھدناالصراط المستقیم"اور سے مراد وہ راستہ ہے جس کی طرف قرآن و حدیث نے رہنمائی کی ہے اور جس کی تبلیغ کے لئے انبیاء و رسل مبعوث ہوئے۔اور اس پر چلنے والوں کو کچھ یوں یاد فرمایا ہے۔اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ اور ان لوگوں نے اسی راستے پر قائم رہتے ہوئے لوگوں کو اس پر چلنے کی ترغیب دلائی ۔
(۳)کہ آج ہم نے اسلام کی نمائندگی کرنے کے بجائے اپنے فرقہ و جماعت کے نمائندہ بن گئے صرف یہ گمان کرتے ہوئے کہ ہماری فرقہ ہمارا مشرب ہی عین اسلام ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام جو کہ کفر کے مقابلے میں تھا ہم نے اس کو فرقوں اور جماعت کے مقابل میں لاکر کھڑا کردیا۔
(۴)شخصیت پرستی کا بھوت ہم پر اس قدر چڑھا کہ ان کی ترویج و اشاعت اور مدح سرائی کو ہی اپنا نصب العین بنا لیا اور ان کی تشہیر و تبلیغ ہی کو شعوری یا غیر شعوری طور پر دین کی تبلیغ سمجھ لیا اور شخصیت پرستی کے چکر میں ہم نے حقیقت کا گلا گھوٹ دیا۔
اور شخصیت پرستی ہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے آج اہل سنت و جماعت میں آپسی خانہ جنگی کا ماحول شباب پر ہے ۔
اور شخصیت پرستی ہے کیا؟ اس کو بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
ایک آدمی ہوں میں ،مجھے اوتاد مت بنا
کہیں ذات چھپ نہ جائے سنگاروں میں ۔
شخصیت پرستی ایسا ماحول ہے جہاں کسی فرد واحد کو مقدس حیثیت دے دی جائے اور کوئی بھی فرد یا ادارہ اس سے اختلاف رائے کی جرات نہ کر سکے اور ہر حال میں اس کے حکم اور رائے کو تسلیم کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا پابند ہو جائے. اور اس کے کسی نظریے پر سوال اٹھانے والا قابل تعزیر و مذمت سمجھا جائے۔
اور شخصیت پرستی کی سب سے بڑی وجہ "غلو"ہے اور غلو کہتے ہیں کہ کسی شخص کی اتنی زیادہ تعریف یا اتنی زیادہ مذمت کرنا جس کا وہ مستحق نہ ہو۔
اور شخصیت پرستی کا منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے مقتضیٰ سے استفادہ کرنے کے بجائے اندھی تقلید میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ذہنی طور پر غلام بن جاتا ہے اور وہ اپنی سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے اور وہ دنیا کے تمام مسائل کا فیصلہ کتاب و سنت کی کسوٹی پر کرنے کے بجائے وہ یہ دیکھتا ہے  کہ اس  کا محبوب کس چیز کو حق اور کس چیز کو باطل کہہ رہا ہے۔
اور شخصیت پرستی میں انسان اسلام کی تبلیغ کرنے کے بجائے شخصیت کی ترویج و اشاعت میں مشغول ہو جاتا ہے ۔
اور قرآن و سنت سے استفادہ کرنے بجائے شخصیات کے قول و فعل پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہی اور اس کے قول کو حرف آخر سمجھنے لگتا ہے ۔
اور شخصیت پرستی کرنے والا شخص لوگوں سے جبراً اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ جتنی محبت میں اپنے شیخ سے کرتا ہوں اتنی ہی وہ بھی کرے۔
اور شخصیت پرستی میں انسان متشدد ہو جاتا ہے اپنے محبوب کی شخصیت کے علاوہ دیگر معزز شخصیتیں مجروح و حقیر نظر آنے لگتی ہیں ۔
اور اپنے شیخ کے نظریے کے علاوہ ہر ایک کا نظریہ باطل و نا حق معلوم ہونے لگتا ہے ۔
اور شخصیت پرستی میں انسان سمندر سے علم حاصل کرنے کے بجائے کنواں سے علم حاصل کرنا پسند کرتا ہے۔
اور شخصیت پرستی میں انسان اس بات کا خواہاں ہوتا ہے کہ میں اپنے محبوب کا جتنا ادب کرتا ہوں اور جن القاب سے ملقب کرتا ہوں دوسرے لوگ بھی اتنا ہی ادب کریں اور اسی القاب سے یاد کریں ۔
اور شخصیت کی ترویج و اشاعت کرنے والا اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ یہ دین کا کام ہو رہا ہے ۔
اور حقیقت یہ ہے کہ آج اہل سنت و جماعت جن حالات سے دو چار ہے اس کی بنیاد ہی اصلا شخصیت پرستی اور اس کہ ترویج و اشاعت ہے ۔
ہم کو چاہیے کہ شخصیت پرستی سے اوپر اٹھ کر تمام شخصیتوں کو محض دین کا عالم اور اللہ کا نیک بندہ سمجھ کر استفادے تک محدود رہیں اور تعلیم و تعلم کے اداب سے آگے نہ بڑھیں ۔اور اگر ایسی فکر ہماری ہو گئی تو یقینا آپسی انتشار اتحاد اور جوڑ میں بدل جائے گا ۔
اب کچھ خامیاں اور ذکر کی جارہی ہیں جن کی اصلاح ناگزیر ہے
(1)کسی بھی شخص کے نظریے سے اختلاف رائے رکھنا ہر ایک کا حق ہے ، لیکن فقط نظریے کے اختلاف کی بنیاد پر اس کا نام بگاڑ کر طرح طرح کی باتیں اس کے ساتھ بطور تضحیک منسوب کرنا اہل علم کا شیوا نہیں ہے۔لیکن آج عجب صورت حال ہے کہ فقط نظری اختلاف کی بنیاد پر نہ جانے کتنی عظیم شخصیتوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
(2)اور دوسری غلطی یہ ہے کہ آج کسی کی بات کو سننے یا پڑھنے سے پہلے ہی ہم فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں کہ اسے قبول کرنا ہے یا رد؟
اور یہ فیصلہ ہم اس تعارف کی وجہ سے کرتے ہیں جو اس صاحب تحریر کے بارے میں ہمارے مذہبی ہم خیال دوست ہمیں کرواتے ہیں ۔
یہ حقیقت میں علمی قید ھے جو ہمیں ایک کنویں میں مقید کر کے علم کے سمندر سے محروم رکھتی ہے.
(3)تیسری غلطی یہ ہے کہ بحث و مباحثہ میں اکثر جذبات میں آکر ہم لوگ مخاطب سے نازیبا کلمات کے ساتھ گفتگو کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ افسوس کا مقام ہے  کہ جن دلوں میں قرآن محفوظ ہے، جس زبان سے قال اللہ و قال رسول کے کلمات ادا ہوتے ہیں اس زبان سے گالی و بد کلامی  نکلتی کیسے ہے؟   اور اس بات پر دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم اللہ، اس کے رسول اور اس کے اصحاب سے محبت کا کرتے ہیں ۔ مگر زبان ابولھب کی سی اور اخلاق ابوجھل سا رکھتے ہیں۔
آج اہل سنت وجماعت کی جو صورت حال ہے اس سے چھٹکارہ کیسے پایا جائے؟؟
تو اس ناچیز طالب علم نے وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
(۱)نظریاتی اختلاف کو حل کرنے کے لئے طعن و تشنیع اور علمی کبریائی کے بجائے عالمانہ و محققانہ انداز میں گفتگو کی جائے۔
(۲) حق پہچاننے کا معیار شخصیات کو بنانے کے بجائے کتاب و سنت کو بنایا جائے۔
(۳)کسی خاص فرقہ یا جماعت کی نمائندگی کرنے کے بجائے اہل سنت و جماعت کی نمائندگی کی جائے۔
(۴)مسائل حل کرنے کے لئے شخصیات پر تبرا کرنے بجائے اپنے علمی اسلحہ خانے کو استعمال کیا جائے۔
(۵)اسلام کو کسی جماعت یا فرق کے مقابل کھڑا کرنے کے بجائے بمقابلہ کفر کھڑا کیا جائے۔
(۶)اپنے نقطہ نظر پر منجمد ہونے کے بجائے احترام و  متبادل کی فضا قائم کی جائے۔
(ٰ۷)نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر تقارب و تحالف کی راہیں مسدود نہ کی جائیں۔
(۸)مختلف فیہ مسائل کو منظر عام پر لانے کے بجائے خالص علمی و تحقیقی انداز میں حل کیا جائے ۔

،

عزیز بیٹی ملالہ

 عزیز بیٹی ملالہ سلامت رہو امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی  بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہ...