Friday, 31 January 2020

مسئلہ جہاد کی حساسیت و اہمیت

جہاد جو آج کے دور کا سلگتا ہوا موضوع ہے اسی کو ہتھیار بنا کر اپنوں اور غیروں نے اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے بری طرح استعمال کیا ہے۔اس وقت اسلام پر سب سے بڑا الزام جہاد کو بنیاد بنا کر دہشت گردی کا لگایاجاتا ہے۔جو کبھی مسلمانوں کی عزت کا محافظ تھا آج مسلمانوں کے بجائے مخالف طاقتوں کا ایک اہم اور بڑا ہتھیار بن چکا ہے جسے وہ اسلام کے خلاف ہر محاذ پر پورے شد و مد کے ساتھ استعمال کررہے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمان آج مظلوم ہونے کے باوجود دہشت گرد اور انسانیت کے لیے خطرے کا باعث سمجھے جارہے ہیںاور یہ ایسی آگ ہے جس کی تپش سے نہ صرف غیروں کی فکری جولان گاہیں جل رہی ہیں بلکہ خود مسلمانوں کے خرمن میں بھی یہ آگ لگی ہوئی ہے۔ 
امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ اس دہکتی آگ کو بجھائے، ورنہ نا جانے یہ آگ کتنے دلوں میں اسلام کے خلاف چنگاری پیدا کر دے گی۔کیوں کی آج کی نسل ہر چیز کی عقلی توجیہات کا تقاضا کرتی ہے ۔جو باتیںاس کی عقل کے موافق ہوتی ہیں وہ اس کو قبول کرتی ہے، ورنہ رد کر دیتی ہے۔
عام طورپر اسلامی جہاد کے متعلق جتنے بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں ان کی بنیادیں نقلی سے کہیں زیادہ عقلی دلائل پر ہوتی ہیں اور ان سوالات کے وہ عقلی جوابات کے متقاضی ہوتے ہیں اور سوالات ایسے ہوتے ہیں جن کو سننے کے بعد عام شخص تو دور ایک پڑھالکھا شخص بھی سوچنے پر مجبورہو جاتا ہےاور وہ اسلام کے متعلق شک و شبہات کے گہرے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔اس لیے ہم کو چاہیے کہ ہم اسلام پر غیروں کی جانب سے ہونے والے سوالات سے راہ فرار تلاش نہ کریں بلکہ ان کا جم کر مقابلہ کریں اور اسی نہج پر جواب دیں جس نہج پر سوالات کیے گئے ہیں۔ یہ بھی تبلیغ دین ہی کا حصہ ہے اور یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرے اور اس کی تعلیمات کا صحیح رخ دنیا والوں کے سامنے پیش کرے۔ چوں کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، جو رہتی دنیا تک رہے گا ،جو تمام افراط و تفریط سے پاک ہےاور اور اس کے اندرقیامت تک پیش آنے والے ہر سوال اور ہر چیلنج کے جواب کی صلاحیت موجود ہے۔
آج کا دور میدان میں جہاد کرنے کا نہیںبلکہ ذہنوں میں جہاد کرنے کا دور ہے۔ اکیڈمک وار کا دور ہے۔ آئیڈیاز اور نظریات کی جنگ ہے اور یہ جنگ ہر مذہب کے لوگ اپنی اپنی سطح پر لڑرہے ہیں۔اس لیے ہم کو دفاع اسلام کے لیے ہر اعتبار سے ہر محاذ کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ 
اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں نفس جہاد، اس کے اقسام،اس کی اہمیت و ضرورت، اس کے مقاصد،ریاست کے احکام،آیات جہاداوراحادیث جہاد کا پس منظر اور ان کی تفسیر و توضیح،جزیہ کے احکام، دارالاسلام،دار الکفرکے احکام اور تاریخ اسلام کا تفصیل کے ساتھ علم ہو۔ مزیدیہ کہ اسلام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز سےہم آشناہوں۔ زمانےکے مزاج سےواقفیت بھی ضروری ہے، تاکہ جوابات دینے میں مشکلات کا سامنا نا کرنا پڑے۔اسی سلسلے کی ایک چھوٹی سی کڑی اس ماہ کا ہمارا یہ جداریہ(دعوت وال میگزین )ہے جو کہ جہاد کے متعلق چند اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔
رب کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اس چھوٹی سی کوشش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے ۔

جہاد پر اعتراضات اور ان کے جوابات

اسلامی ریاست جب مکمل طور سے وجود میں آگئی اور اسلام پہلے کی بنسبت کافی تیزی سے پھیلنے لگا یہاں تک کہ بڑے بڑے علاقے اور ملکوں پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا ،دشمنانِ اسلام کے اندر یہ ہمت باقی نا رہی کہ مسلمانوں کے بالمقابل میدان میں اتر سکیں لیکن وہ اسلام دشمنی میں وہ اس قدر غلو کر چکے تھے کہ اپنا ہر لمحہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتے رہتے  تھے۔
جب وہ لوگ تلوار سے جنگ لڑنے میں مایوس ہوگئے تو انہوں نے ایک نیا منصوبہ بنایا کہ اب ہم کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ اب فکری جنگ کریں گے اور لوگوں کے سامنے اسلام اور پیغمبر اسلام کی غلط شبیہ پیش کریں گے، اسلامی تعلیم پر قدغن لگائیں گے ۔ انہوں نے اپنے اس منصوبے کے تحت اسلام پر متعدد طریقوں سے وار کیا کبھی پیغمبر اسلام کی ازدواجی زندگی پر سوال قائم کیا تو کبھی قرآن کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی تو کبھی مذہب اسلام کو قتل و غارت گری کا مذہب بتایا تو کبھی جہادکے متعلق لوگوں میں غلط سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی اور اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے یہاں تک کہ خود مسلمانوں کو شک و شبہ میں ڈال کر اسلام سے بیزار کردیا آج اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سارے لوگ اسلام کے بارےمیں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے، اسلام نے لوگوں کو لوٹ مار کرنا سکھایا ہے وغیرہ۔
اب ہم یہاں جہاد کے متعلق ہونے والے کچھ اعتراضات اور اسکے جوابات کو پیش کریں گے کیونکہ اسلام کو سب سے زیادہ بدنام کرنے کے لیے جس چیز کو ہتھیار بنایا گیا وہ جہاد ہے ۔
۱۔اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔
جواب۔انسان کے پاس دو چیزیں ہوتی ہیں پہلا جسم دوسرا قلب جسم کو تو تلوار کے زور پر قابو میں کیا جاسکتا ہے لیکن دل کو نہیں ۔حالانکہ ہم دیکھتے ہیں ہے کہ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دعوتی مشن کا آغاز کیا تھا تو اس وقت آپ تنہا تھے آپ کے پاس کوئی تلوار نہیں تھی اور مقابل میں پوری ملت کفر تھی یہاں تک کہ آہستہ آہستہ لوگ بغیر تلوار کے زور کے دامن اسلام سے وابستہ ہونے لگے ۔اس کےبر عکس کفار مکہ نے مسلمانوں کو ستانا شروع کردیا معاشرتی زندگی تنگ کردی اس کے باوجود پیغمبر اپنے ماننے والوں کو صبر کی تعلیم دیتے رہے یہاں تک مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے لیکن ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی اس کے باوجود مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا ۔یہاں اللہ نے خود قرآن مجید میں فرمایا ہے (لا اکراہ فی الدین) اس کے علاوہ بہت سارے واقعات اور بہت ساری مثالیں ایسی ملتی ہیں جوا س بات کو بتاتی ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق اور حق کی تعلیم کی بدولت پھیلا ہے ۔
اس کا دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر ایک داعی کے دعوت دینے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اخلاق پیش کرتا ہے اور ضروری نہیں کہ لوگ اس کی دعوت سے متاثر ہو کراسلام قبول کرلیں لیکن جب ایک بادشاہ اپنی تلوار کی طاقت دکھاتا ہے تو پوری رعایا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اگر مسلم بادشاہ تلوار کی زور پر اسلام پھیلائے ہوتے تو کوئی بھی شخص نا بچتا جو مسلم نا ہوتا حالانکہ ہم دیکھتے ہیں مسلم بادشاہوں کی حکومت میں بے شمار غیرمسلم اپنے رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارتے تھے اور بادشاہ وقت ان کے حقوق کی مکمل پاسداری بھی کرتاتھا۔ خود ہندوستان میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی ہے اگر انہوں نے تلوار کے زور پر اسلام پھیلایا ہوتا تو آج پورا ہندوستان مسلمان ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔
۲۔جب اسلام تلوار کی زور پر نہیں پھیلا تو پھر اسلام میں اتنی ساری جنگیں کیوں ہوئیں؟
جواب ۔اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اگر آپ پر کوئی حملہ کرتا ہے تو آپ اپنی حفاظت کی خاطر اس پر حملہ کر سکتے ہیں۔جب ہم اسلام میں ہوئی جنگوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں ہیں سوائے ایک دو کے مسلمانوں نے کسی بھی جنگ میں خود سے پیش قدمی نہیں کی بلکہ غیروں نے جب اسلام پر حملہ کیا تب مسلمانوں نے ان کے خلاف تلوار اٹھائی ہے ۔اور وہ جنگیں جس میں مسلمانوں نے پیش قدمی کی اس کی وجہ فتنے کا سد باب کرنا تھا اور وہ فتنہ یہ تھا کہ لوگوں کو اپنی مرضی سے مذہب کے انتخاب کرنے کی آزادی نہیں تھی تو اس مذہبی آزادی کی فضا ہموار کرنے کے لئے مسلمانوں نے پیش قدمی کی تاکہ لوگ اپنی مرضی سے جس مذہب کو چاہیں قبول کریں اور اللہ نے فرمایا(لا اكراه فی الدین )۳۔اسلام کے جنگ کرنے کا مقصد اگر اپنا دفاع اور فتنے کا سد باب کرنا تھا تو پھر فتح حاصل کرنے کے بعد کافروں کے مال پر قبضے کو اور بچے ہوئے لوگوں کو غلام بنانے کو جائز کیوں قرار دیا؟
اس سوال کے جاننے سے قبل ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ غلامی کا تصور پایا کب سے جاتا ہے؟ تو جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ غلامی کا تصور قبل اسلام سے چلا آرہا ہے اور اس وقت بھی شکست خوردہ لوگوں کے گلے میں غلامی کی زنجیریں ڈال دی جاتی تھیں اور ان کے مال پر قبضہ کر لیا جاتا تھا مزید ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا لیکن جب اسلام آیا تو یہ چیز اسلام میں بھی منتقل ہو گئی لیکن اس میں زمین آسمان کا فرق تھا وہ یہ کہ جب مسلمان اپنے مقابل کو شکست و ریخت سے دوچار کردیتے تو بقیہ افراد کو غلام بنا لیتے اور جو مال میدان جنگ میں ہوتا تھا صرف اسی پر قبضہ حاصل کرتے تھے اور غلام کے ساتھ وحشیانہ تشدد کرنے بجائے ان کے حقوق کی مکمل پاسداری کرتے تھے اور پھر ان کو آزاد کر دیتے تھے اور اسلام نے بے شمار مواقع پر غلام آزاد کرنے کی تعلیم و ترغیب بھی دی ہے نا کہ غلامی کلچر کو فروغ دیا ہے ۔اور جو قوم جنگ میں شکست کھا جاتی تھی اس کا جانی مالی بہت زیادہ نقصان ہو جاتا تھا وہ قوت و معیشت کے اعتبار سے بالکل کمزور ہو جاتی تھی اگر اسلام ان شکست خوردہ لوگوں کو غلام بنا کر ان کو حقوق نہ دیتا تو وہ بے یار و مددگار ہو جاتے اور اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے لوٹ ، قتل اور غارت کرتے جو فساد فی الارض کا سبب بنتا ۔
یہ تھے کچھ بنیادی اعتراضات اور ان کے جوابات ان کے علاوہ جہاد اور ایات جہاد پر بے شمار اعتراضات ہیں جن کے جوابات دئے جا چکے اور مزید دیے جارہے ہیں ۔

عزیز بیٹی ملالہ

 عزیز بیٹی ملالہ سلامت رہو امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی  بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہ...