جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں ۔
خانقاہ عارفیہ کا صاحب سجادہ مدرسہ عارفیہ کا بانی ہوں۔
مسلکا سنی حنفی، مشربا چشتی ،قادری،نقشبندی، سہروردی اور نسبا عثمانی ہوں اور ان سب سے پہلے محمدی ہوں۔صوفیاء کی روایات کا پاسبان اور اسلام کا داعی ہوں۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے امت مسلمہ کے بکھرتے ہوئے شیرازہ کو دیکھا تو کڑھن محسوس کی کہ آج ہر شخص اپنے گروہ کا داعی بنا ہوا ہے، مدارس جو دین کے قلعے تھے وہاں پر اپنے فرقہ کی تعلیم دی جا رہی ہے، فروعی اختلافات پر جنگ و جدل کا عجب ماحول بنا ہوا ہے کوئی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے، صوفیا کرام کی تعلیمات پر قدغن لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تصوف کو اسلام کا مغایر قرار دیا جارہا ہے ۔تو میں نے اس کڑھن کے سد باب کے لیے اور امت کو ایک مرکز پر لانے کے لیے پیش رفت کی اور جامعہ عارفیہ کی بنیاد ڈالی لیکن قائدین وقت نے میرے آگے بڑھنے کے راستوں کو مسدود کرنے کی بہت کوششیں کیں کہ کہیں ہماری قیادت نہ چلی جائے لیکن میں نے ان کی مخالفت پر کان دھرے بغیر آگے بڑھتا رہا کیونکہ مجھے فکر تھی اپنی قوم کی جو بے سہارا تھی اور ٹکٹکی باندھے منتظر تھی کہ کوئی مسیحا آئے ہماری کشتی کو اس بھنور سے نکالے ۔میری مخالفت ہوتی رہی لیکن میں آگے بڑھتا ہی رہا ۔
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے اپنے دعوتی مشن کا آغاز فرد سے کیا میں نے فرد کی ذہنیت کو بدلنے کی کوشش کی کیونکہ میں جانتا تھا جب فرد کی ذہنیت بدلے گی تو آہستہ آہستہ افراد کی حد تک انقلاب آئے گا اور جب افراد میں انقلاب آئے گا تو قوم بدلے گی۔تبھی مجھے ایک چیز سمجھ میں آگئی کہ آخر لوگ تعمیری میدان میں کیوں کام کرنا نہیں چاہتے؟؟ وہ صرف اس لیے کہ تعمیری کام کرنا ایک انتہائی خاموش کام ہے اس میں آدمی کو کام زیادہ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ بہت کم ملتا ہے یعنی یہ کام ایسا ہے کہ قوم کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے اس کی بنیاد میں دفن ہو جانا ہے اس کام کی یہی مشکل نوعیت ہے جس کی بنا پر شہرت پسند افراد اس میدان میں محنت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔
لیکن میں نے اللہ کی رضا کے لیے تعمیری کردار ادا کرنا شروع کریا ۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ لوگ دوسروں کے ساتھ اختلافی مسائل میں الجھ کر تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں حالانکہ زمانہ نے مجھے یہ تجربہ دیا ہے کہ انسان بیک وقت دو محاذ پر اپنی قوت صرف نہیں کر سکتا ہے اگر وہ نزاع میں الجھے گا تو تعمیری کام رک جائے گا اور اگر تعمیری کام میں مصروف ہوگا تو اسے نزاع کے میدان کو چھوڑنا پڑے گا ۔
اور میں ایسے موڑ پر کھڑا تھا کہ ایک طرف لوگ مجھے نزاع میں الجھانے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف میں تعمیری کام کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے مخالفت میں الجھے بغیر تعمیری کام کی طرف اپنی توجہ کو مبذول کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج میرے ساتھ باصلاحیت علماء کی ایک جماعت ہے جو میرے مشن کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ آج میرا قائم کیا ہوا ادارہ اپنی منفرد پہچان بنا چکا ہے ۔جس کا الحاق جامع ازہر مصر اور جامعہ مصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی ایران سے ہے جہاں پر طلبہ عارفیہ اپنی علمی تشنگی کو بجھا رہے ہیں ۔اور دیگر عصری اداروں سے بھی معادلہ ہو چکا ہے ۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں اور زندہ قوم کا بیٹا ہوں اس لیے میں مقاصد کو اہمیت دیتا ہوں، حال میں جیتا ہوں ماضی پہ شکوے نہیں کرتا، تنقید کا استقبال کرتا ہوں، عسر کی زمین پر یسر کی کھیتی کرتا ہوں، حقیقی ایشو پر آواز بلند کرتا ہوں نہ کہ دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہتا ہوں۔۔
جی ہاں میں ہی ابو سعید ہوں جس نے تصوف پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا ،جس نے تعلیمات صوفیاء کو عام کرنے کے لیے ماہنامہ خضر راہ اور سالنامہ الاحسان کو جاری کیا تعلیمات تصوف کا نایاب فارسی متن مجمع السلوک (شیخ سعد الدین خیرآبادی) کو اردو میں ترجمہ کروایا جو کہ تعلیمات صوفیا کے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
قریب ہے کہ زمانہ ٹھر کر بولے گا
کہ یہ فقیر تو قبضہ جہاں پہ رکھتا ہے
#احمدصفی