Thursday, 3 June 2021

عزیز بیٹی ملالہ


 عزیز بیٹی ملالہ
سلامت رہو
امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی 
بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہیں بن رہا تھا اب تمہارے اس  انٹرویو نے مجھے مجبور کیا کہ تمہیں شفقت سے کچھ نصیحتیں کر دوں  ویسے تو یہ کام تمہارے والد کا ہے مگر مجھے افسوس ہے شاید انہوں نے اپنی دنیا بنانے کے لئے تمہاری آخرت برباد کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے 
ممکن ہے  تمہیں یہ باتیں ناگوار گزریں مگر بیٹا ایک انکل کی خیر خواہی سمجھ کر نظر انداز کر دینا
میری بیٹی تم بہت چھوٹی اور نا سمجھ تھیں جب کچھ لبرل قوتوں نے بڑی سمجھ داری سے تمہاری نا سمجھی کو استعمال کیا اور تم اس پورے ڈرامہ کا حصہ بن گئیں مجھے یقین ہے اللہ تمہارے بچپن اور کم سنی کے سبب تمہیں معاف کر دے گا 
مگر میری عزیز بیٹی اب تم نوجوانی کی عمر میں ہو اب اپنے اعمال  کی خود جوابدہ ہو رہی ہو ایک بار سکون سے سوچ لو کہیں تمہیں ایک دلکش مستقبل کے خواب دکھا کر کسی کے مقاصد کے لئے  قربان تو نہیں کر دیاجائے گا ؟
ایک اور اہم بات جو یہاں ہمارے کلچر میں تو بیٹیوں سے یو ں نہیں کہہ پاتے مگر جہاں تم اب ہو وہاں بہرحال یہ باتیں رسالوں میں چھپتی ہیں بیٹی ایک کمرے کی چھت کے نیچے تو جانور بھی باندھے جاتے ہیں اکثر ان میں کوئی باہمی رشتہ نہیں ہوتا مگر ایک چھت کے نیچےرہنے بسنے والے انسان بہرحال رشتوں میں بندھے ہی اچھے ہوتے ہیں مردو عورت کی ایک دوسرے سے ضروریات بس جسمانی نہیں ہوتیں روحانی جذباتی و نفسیاتی بھی ہوتی ہیں جو رشتوں کے بندھن کے بغیر ممکن نہیں ہوتیں تم ابھی چھوٹی ہو جانتی نہیں ہو جب ذرا پختہ و سنجیدہ عمر تک پہنچو گی تو تمہیں تب میاں بیوی کے اس پاکیزہ رشتے کی ضرورت ہو گی مگر تب تک یہ درندے تمہیں ٹشو پیپرز کی طرح استعمال کر چکے ہوں گےتنہائی محرومی پچھتاوا بانٹنے والا بھی کوئی نہ ہو گا 

میری بچی  خدا کے لئے اس فریب سے بچ جاو اپنے محبت کرنے والے رب کی آغوش میں لوٹ  آو وہ پیار سے تمہارا منتظر ہے اسے اور کتنا انتظار کرواو گی؟

تمہارا خیر خواہ  تمہارا انکل 
زبیر منصوری 

۳ جون ۲۰۲۱  



Tuesday, 28 July 2020

مبشر علی زیدی سے ایک مکالمہ

احمد صفی:السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ 
مبشر علی زیدی:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

احمد صفی :آپ کی تحاریر پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں آپ کو بہت ساری چیزیں معیوب لگتی ہیں ،اور یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ اسلام کے خلاف ہیں؟ 
مبشر علی زیدی:میں اسلام یا مذہب کے خلاف نہیں ہوں، ان کے اس رخ کے خلاف ہوں جو ہم تک پہنچتے پہنچتے مسخ ہوگیا ہے۔میں کہیں لکھ چکا ہوں کہ جو درست ہے، وہ اسلام ہے۔ جو غلط ہے، وہ اسلام نہیں ہوسکتا۔جو اسلام ہمارے سامنے ہے، اس میں بہت کچھ غلط ہے۔

احمد صفی :اعتراضات قائم کرنے کے پیچھے آپ کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ 
مبشر علی زیدی:اعتراض کا مقصد حقیقت جاننا ہوتا ہے۔ میں اپنے خاندانی مذہب یعنی شیعہ ازم پر بھی بے رحمی سے تنقید کرتا رہا ہوں۔ آپ کو ایک عام شیعہ ہمیشہ میری برائی کرتا ہوا ملے گا۔بس میں بھی اپنے الجھے ہوئے ذہن میں آنے والے سوالات لکھ دیتا ہوں۔ ان سوالات کا مقصد مذہب پرستوں سے کوئی بحث چھیڑنا یا ملحدین سے داد حاصل کرنا نہیں ہوتا ہے ۔

احمد صفی:کیا آپ شروع سے ہی ایسے تھے یا پھر کوئی حادثہ یا واقعہ اسلام کے متعلق آپ کی فکر کو بدلنے کا سبب بنا ہے۔
مبشر علی زیدی:میرا خیال ہے کہ میں شروع سے ہی تنقیدی ذہن کا مالک ہوں۔ نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، عمرہ اور حج کیا، زیارات پر گیا۔ ہر مقام پر سچے دل سے عبادت کی۔قرآن کے درجنوں ترجمے اور چند ایک تفاسیر بھی پڑھیں۔

احمد صفی:عام مسلمانوں کے متعلق آپ کی کیا سوچ ہے؟؟ 
مبشر علی زیدی:مسلمان ایک دائرے میں قید ہیں۔ ایک حد سے آگے سوچتے ہی نہیں۔وہ مسائل کو استدلال کی نگاہوں سے دیکھنے کے بجائے عقیدت کی نگاہوں سے دیکھنے کے خو گر ہیں۔

احمد صفی:آپ نے ابھی تک جو اسلام پر اعتراضات اٹھائے ہیں کیا آپ کو ان کا تشفی بخش جواب ملا ہے؟؟
مبشر علی زیدی:جو لوگ اسلام چھوڑ چکے ہیں یا تنقیدی نگاہ سے مذہب کو دیکھتے ہیں، ان کے سوالات ایک عام مسلمان یا عالم دین سن بھی نہیں سکتا، جواب دینا تو دور کی بات ہے۔
مزید میں نے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے ۔ اعتراضات پہلے سے موجود ہیں۔ اگر میں نے کوئی دوہرایا ہے تو ان کا پرانا جواب ملا ہے جو پہلے سے میرے علم میں تھا۔مثال کے طور پر آج کل امریکہ میں بلیک لائیوز میٹر تحریک جاری ہے۔ ماضی کے ہیروز آج کے ولن قرار دیے جارہے ہیں۔ خود کو سیاہ فام غلام کے طور پر سوچیں۔ کیسی زندگی ہوگی؟ کیا آپ برداشت کرسکیں گے؟
دنیا کے سب سے اعلیٰ مذہب نے غلامی کیوں ختم نہیں کی؟ ایک آیت آجاتی ہے۔ کس میں حوصلہ تھا کہ انکار کرتا؟علما جواب دیتے ہیں کہ اسلام نے غلامی ختم کرنے کا راستہ دکھادیا تھا۔ یہ محض دل کو تسلی دینے کا بہانہ ہے۔ اگر کوئی راستہ تھا تو ابراہام لنکن سے پہلے کسی مسلمان ملک یا رہنما یا عالم نے کوئی پیشرفت کی؟

احمد صفی:آپ امریکہ میں رہتے ہیں وہاں رہ کر آپ کو یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ وہاں کے لوگ اسلام کے تئیں کیسی سوچ رکھتے ہیں؟ اور خاندان کا کیا تصور ہے؟ 
مبشر علی زیدی:یہاں کے مسلمان ویسے ہی ہیں جیسے پاکستان کے، جیسے ایران کے، جیسے شمالی افریقہ کے جیسے ہندوستان کے۔وہ دور گیا جب کچھ لوگ شرابیں پینے اور لڑکیوں سے دوستی کے لیے آتے تھے۔ اب خاندان کے خاندان آگئے ہیں اس لیے مذہبی رسومات پر مسلمان ملکوں کی طرح عمل ہورہا ہے۔
جن خاندانوں کے بچے مقامی افراد کے ساتھ گھل مل گئے ہیں اور شادیاں کرلی ہیں، وہ روایتی امریکی بن گئے ہیں۔
امریکی مذہبی لوگ ہوتے ہیں۔ امریکہ مذہبی معاشرہ ہے۔  آپ اپنی مرضی سے کچھ بھی کرلیں لیکن جسم فروشی ممنوع ہے۔ میرے علاقے میں ہر چار قدم پر گرجا ہے۔ میری کاؤنٹی میں دو امام بارگاہ ہیں۔
احمد صفی:آپ اسلام پر نقد کرنے والوں کی فہرست میں سر فہرست ہیں یہ ضرور بتائیں کہ آپ کے مطابق اسلام کا مطالعہ کس نہج پر کرنا چاہیے؟؟
مبشر علی زیدی:اسلام کا مطالعہ ہر شخص کو اپنے مزاج کے مطابق کرنا چاہیے۔ آپ تنقیدی ذہن نہیں رکھتے تو خاندان کے مذہب پر عامل رہیں۔
تنقیدی ذہن رکھنے والے کو تاریخ، سیرت اور قرآن کو ایک ساتھ پڑھنا چاہیے۔ مکمل تصویر دیکھے بغیر کچھ سمجھ میں نہیں آسکتا۔گھر سے نکلنے والا بھٹک سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ گھر واپس نہ آسکے۔ اس لیے باہر قدم نکالنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے۔
احمد صفی :آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا اور بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ سوالات کے جوابات دیے ۔
  • مبشر علی زیدی:آپ کا بھی بہت بہت شکریہ کہ آپ نے علمی اسلوب میں سوالات پوچھے اور مجھے کچھ عرض کرنے کا موقع عنایت فرمایا ۔جزاک اللہ خیرا

Tuesday, 30 June 2020

مبشر علی زیدی سے ایک مکالمہ

احمد صفی:السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ 
مبشر علی زیدی:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

احمد صفی :آپ کی تحاریر پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں آپ کو بہت ساری چیزیں معیوب لگتی ہیں ،اور یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ اسلام کے خلاف ہیں؟ 
مبشر علی زیدی:میں اسلام یا مذہب کے خلاف نہیں ہوں، ان کے اس رخ کے خلاف ہوں جو ہم تک پہنچتے پہنچتے مسخ ہوگیا ہے۔میں کہیں لکھ چکا ہوں کہ جو درست ہے، وہ اسلام ہے۔ جو غلط ہے، وہ اسلام نہیں ہوسکتا۔جو اسلام ہمارے سامنے ہے، اس میں بہت کچھ غلط ہے۔

احمد صفی :اعتراضات قائم کرنے کے پیچھے آپ کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ 
مبشر علی زیدی:اعتراض کا مقصد حقیقت جاننا ہوتا ہے۔ میں اپنے خاندانی مذہب یعنی شیعہ ازم پر بھی بے رحمی سے تنقید کرتا رہا ہوں۔ آپ کو ایک عام شیعہ ہمیشہ میری برائی کرتا ہوا ملے گا۔بس میں بھی اپنے الجھے ہوئے ذہن میں آنے والے سوالات لکھ دیتا ہوں۔ ان سوالات کا مقصد مذہب پرستوں سے کوئی بحث چھیڑنا یا ملحدین سے داد حاصل کرنا نہیں ہوتا ہے ۔

احمد صفی:کیا آپ شروع سے ہی ایسے تھے یا پھر کوئی حادثہ یا واقعہ اسلام کے متعلق آپ کی فکر کو بدلنے کا سبب بنا ہے۔
مبشر علی زیدی:میرا خیال ہے کہ میں شروع سے ہی تنقیدی ذہن کا مالک ہوں۔ نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، عمرہ اور حج کیا، زیارات پر گیا۔ ہر مقام پر سچے دل سے عبادت کی۔قرآن کے درجنوں ترجمے اور چند ایک تفاسیر بھی پڑھیں۔

احمد صفی:عام مسلمانوں کے متعلق آپ کی کیا سوچ ہے؟؟ 
مبشر علی زیدی:مسلمان ایک دائرے میں قید ہیں۔ ایک حد سے آگے سوچتے ہی نہیں۔وہ مسائل کو استدلال کی نگاہوں سے دیکھنے کے بجائے عقیدت کی نگاہوں سے دیکھنے کے خو گر ہیں۔

احمد صفی:آپ نے ابھی تک جو اسلام پر اعتراضات اٹھائے ہیں کیا آپ کو ان کا تشفی بخش جواب ملا ہے؟؟
مبشر علی زیدی:جو لوگ اسلام چھوڑ چکے ہیں یا تنقیدی نگاہ سے مذہب کو دیکھتے ہیں، ان کے سوالات ایک عام مسلمان یا عالم دین سن بھی نہیں سکتا، جواب دینا تو دور کی بات ہے۔
مزید میں نے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے ۔ اعتراضات پہلے سے موجود ہیں۔ اگر میں نے کوئی دوہرایا ہے تو ان کا پرانا جواب ملا ہے جو پہلے سے میرے علم میں تھا۔مثال کے طور پر آج کل امریکہ میں بلیک لائیوز میٹر تحریک جاری ہے۔ ماضی کے ہیروز آج کے ولن قرار دیے جارہے ہیں۔ خود کو سیاہ فام غلام کے طور پر سوچیں۔ کیسی زندگی ہوگی؟ کیا آپ برداشت کرسکیں گے؟
دنیا کے سب سے اعلیٰ مذہب نے غلامی کیوں ختم نہیں کی؟ ایک آیت آجاتی ہے۔ کس میں حوصلہ تھا کہ انکار کرتا؟علما جواب دیتے ہیں کہ اسلام نے غلامی ختم کرنے کا راستہ دکھادیا تھا۔ یہ محض دل کو تسلی دینے کا بہانہ ہے۔ اگر کوئی راستہ تھا تو ابراہام لنکن سے پہلے کسی مسلمان ملک یا رہنما یا عالم نے کوئی پیشرفت کی؟

احمد صفی:آپ امریکہ میں رہتے ہیں وہاں رہ کر آپ کو یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ وہاں کے لوگ اسلام کے تئیں کیسی سوچ رکھتے ہیں؟ اور خاندان کا کیا تصور ہے؟ 
مبشر علی زیدی:یہاں کے مسلمان ویسے ہی ہیں جیسے پاکستان کے، جیسے ایران کے، جیسے شمالی افریقہ کے جیسے ہندوستان کے۔وہ دور گیا جب کچھ لوگ شرابیں پینے اور لڑکیوں سے دوستی کے لیے آتے تھے۔ اب خاندان کے خاندان آگئے ہیں اس لیے مذہبی رسومات پر مسلمان ملکوں کی طرح عمل ہورہا ہے۔
جن خاندانوں کے بچے مقامی افراد کے ساتھ گھل مل گئے ہیں اور شادیاں کرلی ہیں، وہ روایتی امریکی بن گئے ہیں۔
امریکی مذہبی لوگ ہوتے ہیں۔ امریکہ مذہبی معاشرہ ہے۔  آپ اپنی مرضی سے کچھ بھی کرلیں لیکن جسم فروشی ممنوع ہے۔ میرے علاقے میں ہر چار قدم پر گرجا ہے۔ میری کاؤنٹی میں دو امام بارگاہ ہیں۔
احمد صفی:آپ اسلام پر نقد کرنے والوں کی فہرست میں سر فہرست ہیں یہ ضرور بتائیں کہ آپ کے مطابق اسلام کا مطالعہ کس نہج پر کرنا چاہیے؟؟
مبشر علی زیدی:اسلام کا مطالعہ ہر شخص کو اپنے مزاج کے مطابق کرنا چاہیے۔ آپ تنقیدی ذہن نہیں رکھتے تو خاندان کے مذہب پر عامل رہیں۔
تنقیدی ذہن رکھنے والے کو تاریخ، سیرت اور قرآن کو ایک ساتھ پڑھنا چاہیے۔ مکمل تصویر دیکھے بغیر کچھ سمجھ میں نہیں آسکتا۔گھر سے نکلنے والا بھٹک سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ گھر واپس نہ آسکے۔ اس لیے باہر قدم نکالنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے۔
احمد صفی :آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا اور بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ سوالات کے جوابات دیے ۔
مبشر علی زیدی:آپ کا بھی بہت بہت شکریہ کہ آپ نے علمی اسلوب میں سوالات پوچھے اور مجھے کچھ عرض کرنے کا موقع عنایت فرمایا ۔جزاک اللہ خیرا

Friday, 31 January 2020

مسئلہ جہاد کی حساسیت و اہمیت

جہاد جو آج کے دور کا سلگتا ہوا موضوع ہے اسی کو ہتھیار بنا کر اپنوں اور غیروں نے اسلام سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے بری طرح استعمال کیا ہے۔اس وقت اسلام پر سب سے بڑا الزام جہاد کو بنیاد بنا کر دہشت گردی کا لگایاجاتا ہے۔جو کبھی مسلمانوں کی عزت کا محافظ تھا آج مسلمانوں کے بجائے مخالف طاقتوں کا ایک اہم اور بڑا ہتھیار بن چکا ہے جسے وہ اسلام کے خلاف ہر محاذ پر پورے شد و مد کے ساتھ استعمال کررہے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمان آج مظلوم ہونے کے باوجود دہشت گرد اور انسانیت کے لیے خطرے کا باعث سمجھے جارہے ہیںاور یہ ایسی آگ ہے جس کی تپش سے نہ صرف غیروں کی فکری جولان گاہیں جل رہی ہیں بلکہ خود مسلمانوں کے خرمن میں بھی یہ آگ لگی ہوئی ہے۔ 
امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ اس دہکتی آگ کو بجھائے، ورنہ نا جانے یہ آگ کتنے دلوں میں اسلام کے خلاف چنگاری پیدا کر دے گی۔کیوں کی آج کی نسل ہر چیز کی عقلی توجیہات کا تقاضا کرتی ہے ۔جو باتیںاس کی عقل کے موافق ہوتی ہیں وہ اس کو قبول کرتی ہے، ورنہ رد کر دیتی ہے۔
عام طورپر اسلامی جہاد کے متعلق جتنے بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں ان کی بنیادیں نقلی سے کہیں زیادہ عقلی دلائل پر ہوتی ہیں اور ان سوالات کے وہ عقلی جوابات کے متقاضی ہوتے ہیں اور سوالات ایسے ہوتے ہیں جن کو سننے کے بعد عام شخص تو دور ایک پڑھالکھا شخص بھی سوچنے پر مجبورہو جاتا ہےاور وہ اسلام کے متعلق شک و شبہات کے گہرے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔اس لیے ہم کو چاہیے کہ ہم اسلام پر غیروں کی جانب سے ہونے والے سوالات سے راہ فرار تلاش نہ کریں بلکہ ان کا جم کر مقابلہ کریں اور اسی نہج پر جواب دیں جس نہج پر سوالات کیے گئے ہیں۔ یہ بھی تبلیغ دین ہی کا حصہ ہے اور یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرے اور اس کی تعلیمات کا صحیح رخ دنیا والوں کے سامنے پیش کرے۔ چوں کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، جو رہتی دنیا تک رہے گا ،جو تمام افراط و تفریط سے پاک ہےاور اور اس کے اندرقیامت تک پیش آنے والے ہر سوال اور ہر چیلنج کے جواب کی صلاحیت موجود ہے۔
آج کا دور میدان میں جہاد کرنے کا نہیںبلکہ ذہنوں میں جہاد کرنے کا دور ہے۔ اکیڈمک وار کا دور ہے۔ آئیڈیاز اور نظریات کی جنگ ہے اور یہ جنگ ہر مذہب کے لوگ اپنی اپنی سطح پر لڑرہے ہیں۔اس لیے ہم کو دفاع اسلام کے لیے ہر اعتبار سے ہر محاذ کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ 
اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں نفس جہاد، اس کے اقسام،اس کی اہمیت و ضرورت، اس کے مقاصد،ریاست کے احکام،آیات جہاداوراحادیث جہاد کا پس منظر اور ان کی تفسیر و توضیح،جزیہ کے احکام، دارالاسلام،دار الکفرکے احکام اور تاریخ اسلام کا تفصیل کے ساتھ علم ہو۔ مزیدیہ کہ اسلام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز سےہم آشناہوں۔ زمانےکے مزاج سےواقفیت بھی ضروری ہے، تاکہ جوابات دینے میں مشکلات کا سامنا نا کرنا پڑے۔اسی سلسلے کی ایک چھوٹی سی کڑی اس ماہ کا ہمارا یہ جداریہ(دعوت وال میگزین )ہے جو کہ جہاد کے متعلق چند اہم موضوعات پر مشتمل ہے۔
رب کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اس چھوٹی سی کوشش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے ۔

جہاد پر اعتراضات اور ان کے جوابات

اسلامی ریاست جب مکمل طور سے وجود میں آگئی اور اسلام پہلے کی بنسبت کافی تیزی سے پھیلنے لگا یہاں تک کہ بڑے بڑے علاقے اور ملکوں پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا ،دشمنانِ اسلام کے اندر یہ ہمت باقی نا رہی کہ مسلمانوں کے بالمقابل میدان میں اتر سکیں لیکن وہ اسلام دشمنی میں وہ اس قدر غلو کر چکے تھے کہ اپنا ہر لمحہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتے رہتے  تھے۔
جب وہ لوگ تلوار سے جنگ لڑنے میں مایوس ہوگئے تو انہوں نے ایک نیا منصوبہ بنایا کہ اب ہم کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ اب فکری جنگ کریں گے اور لوگوں کے سامنے اسلام اور پیغمبر اسلام کی غلط شبیہ پیش کریں گے، اسلامی تعلیم پر قدغن لگائیں گے ۔ انہوں نے اپنے اس منصوبے کے تحت اسلام پر متعدد طریقوں سے وار کیا کبھی پیغمبر اسلام کی ازدواجی زندگی پر سوال قائم کیا تو کبھی قرآن کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی تو کبھی مذہب اسلام کو قتل و غارت گری کا مذہب بتایا تو کبھی جہادکے متعلق لوگوں میں غلط سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی اور اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے یہاں تک کہ خود مسلمانوں کو شک و شبہ میں ڈال کر اسلام سے بیزار کردیا آج اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سارے لوگ اسلام کے بارےمیں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے، اسلام نے لوگوں کو لوٹ مار کرنا سکھایا ہے وغیرہ۔
اب ہم یہاں جہاد کے متعلق ہونے والے کچھ اعتراضات اور اسکے جوابات کو پیش کریں گے کیونکہ اسلام کو سب سے زیادہ بدنام کرنے کے لیے جس چیز کو ہتھیار بنایا گیا وہ جہاد ہے ۔
۱۔اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔
جواب۔انسان کے پاس دو چیزیں ہوتی ہیں پہلا جسم دوسرا قلب جسم کو تو تلوار کے زور پر قابو میں کیا جاسکتا ہے لیکن دل کو نہیں ۔حالانکہ ہم دیکھتے ہیں ہے کہ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دعوتی مشن کا آغاز کیا تھا تو اس وقت آپ تنہا تھے آپ کے پاس کوئی تلوار نہیں تھی اور مقابل میں پوری ملت کفر تھی یہاں تک کہ آہستہ آہستہ لوگ بغیر تلوار کے زور کے دامن اسلام سے وابستہ ہونے لگے ۔اس کےبر عکس کفار مکہ نے مسلمانوں کو ستانا شروع کردیا معاشرتی زندگی تنگ کردی اس کے باوجود پیغمبر اپنے ماننے والوں کو صبر کی تعلیم دیتے رہے یہاں تک مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے لیکن ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی اس کے باوجود مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا ۔یہاں اللہ نے خود قرآن مجید میں فرمایا ہے (لا اکراہ فی الدین) اس کے علاوہ بہت سارے واقعات اور بہت ساری مثالیں ایسی ملتی ہیں جوا س بات کو بتاتی ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق اور حق کی تعلیم کی بدولت پھیلا ہے ۔
اس کا دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر ایک داعی کے دعوت دینے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اخلاق پیش کرتا ہے اور ضروری نہیں کہ لوگ اس کی دعوت سے متاثر ہو کراسلام قبول کرلیں لیکن جب ایک بادشاہ اپنی تلوار کی طاقت دکھاتا ہے تو پوری رعایا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اگر مسلم بادشاہ تلوار کی زور پر اسلام پھیلائے ہوتے تو کوئی بھی شخص نا بچتا جو مسلم نا ہوتا حالانکہ ہم دیکھتے ہیں مسلم بادشاہوں کی حکومت میں بے شمار غیرمسلم اپنے رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارتے تھے اور بادشاہ وقت ان کے حقوق کی مکمل پاسداری بھی کرتاتھا۔ خود ہندوستان میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی ہے اگر انہوں نے تلوار کے زور پر اسلام پھیلایا ہوتا تو آج پورا ہندوستان مسلمان ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔
۲۔جب اسلام تلوار کی زور پر نہیں پھیلا تو پھر اسلام میں اتنی ساری جنگیں کیوں ہوئیں؟
جواب ۔اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اگر آپ پر کوئی حملہ کرتا ہے تو آپ اپنی حفاظت کی خاطر اس پر حملہ کر سکتے ہیں۔جب ہم اسلام میں ہوئی جنگوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں ہیں سوائے ایک دو کے مسلمانوں نے کسی بھی جنگ میں خود سے پیش قدمی نہیں کی بلکہ غیروں نے جب اسلام پر حملہ کیا تب مسلمانوں نے ان کے خلاف تلوار اٹھائی ہے ۔اور وہ جنگیں جس میں مسلمانوں نے پیش قدمی کی اس کی وجہ فتنے کا سد باب کرنا تھا اور وہ فتنہ یہ تھا کہ لوگوں کو اپنی مرضی سے مذہب کے انتخاب کرنے کی آزادی نہیں تھی تو اس مذہبی آزادی کی فضا ہموار کرنے کے لئے مسلمانوں نے پیش قدمی کی تاکہ لوگ اپنی مرضی سے جس مذہب کو چاہیں قبول کریں اور اللہ نے فرمایا(لا اكراه فی الدین )۳۔اسلام کے جنگ کرنے کا مقصد اگر اپنا دفاع اور فتنے کا سد باب کرنا تھا تو پھر فتح حاصل کرنے کے بعد کافروں کے مال پر قبضے کو اور بچے ہوئے لوگوں کو غلام بنانے کو جائز کیوں قرار دیا؟
اس سوال کے جاننے سے قبل ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ غلامی کا تصور پایا کب سے جاتا ہے؟ تو جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ غلامی کا تصور قبل اسلام سے چلا آرہا ہے اور اس وقت بھی شکست خوردہ لوگوں کے گلے میں غلامی کی زنجیریں ڈال دی جاتی تھیں اور ان کے مال پر قبضہ کر لیا جاتا تھا مزید ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا لیکن جب اسلام آیا تو یہ چیز اسلام میں بھی منتقل ہو گئی لیکن اس میں زمین آسمان کا فرق تھا وہ یہ کہ جب مسلمان اپنے مقابل کو شکست و ریخت سے دوچار کردیتے تو بقیہ افراد کو غلام بنا لیتے اور جو مال میدان جنگ میں ہوتا تھا صرف اسی پر قبضہ حاصل کرتے تھے اور غلام کے ساتھ وحشیانہ تشدد کرنے بجائے ان کے حقوق کی مکمل پاسداری کرتے تھے اور پھر ان کو آزاد کر دیتے تھے اور اسلام نے بے شمار مواقع پر غلام آزاد کرنے کی تعلیم و ترغیب بھی دی ہے نا کہ غلامی کلچر کو فروغ دیا ہے ۔اور جو قوم جنگ میں شکست کھا جاتی تھی اس کا جانی مالی بہت زیادہ نقصان ہو جاتا تھا وہ قوت و معیشت کے اعتبار سے بالکل کمزور ہو جاتی تھی اگر اسلام ان شکست خوردہ لوگوں کو غلام بنا کر ان کو حقوق نہ دیتا تو وہ بے یار و مددگار ہو جاتے اور اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے لوٹ ، قتل اور غارت کرتے جو فساد فی الارض کا سبب بنتا ۔
یہ تھے کچھ بنیادی اعتراضات اور ان کے جوابات ان کے علاوہ جہاد اور ایات جہاد پر بے شمار اعتراضات ہیں جن کے جوابات دئے جا چکے اور مزید دیے جارہے ہیں ۔

Wednesday, 9 January 2019

اپنے سب سے عزیز دوست (عفان عزیزی )کے نام نصیحت نامہ۔۔۔ تمہارے دوست احمد صفی کے قلم سے ۔


مدرسے کی زندگی کی کتنی صبحیں اور کتنی شامیں ہم نے ساتھ گزاریں
مجھے وہ دن بھی یاد ہے،جب مدرسہ میں تمہارا پہلا سال تھا اور میرا شاید کہ تیسرا. تم دس سال کے تھے تم نے اپنی پڑھائی کا آغاز نورانی قاعدہ سے کیا تھا اور خدا کے فضل سے تم نے بہت جلد حفظ قرآن مکمل کر لیا تھا تم اس وقت  اتنے چھوٹے تھے کہ لوگ دستار کے موقع تم سےجھک کر معانقہ کر رہے تھے ۔
یہاں تک کہ تم نے شعبہ عالمیت میں بھی داخلہ لے لیا
اور اپنے تعلیمی سفر میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے اور ہر جماعت میں اعلی پوزیشن حاصل کرتے رہے علمی مسابقہ میں ہمیشہ انعام کے مستحق قرار پائے یہاں تک کہ تم اپنی خوبیوں کی بنیاد پر طلبہ اور اساتذہ کے عزیز بن گئے ۔
لیکن 2019 نہ جانے تمہارے لیے کیا لیکر آیا کہ تم نے اپنے مادر علمی کو تعلیم مکمل ہونے سے قبل ہی ہمیشہ ہمیش کے لیے الوداع کہہ دیا ۔5جنوری 2019 کو دوپہر کا کھانا تمہارے ساتھ کھایا اور پھر سو گیا عصر کی نماز کے بعد میری نظریں تمہیں تلاشتی رہیں لیکن تم کہیں نظر نہ آئے اچانک یہ خبر سن نے کو ملی کہ تم نے ہمیشہ کے لیے جامعہ کو چھوڑ  دیا ہے ۔وقتی طور پر تو دل کو جھٹکا لگا لیکن یہ سوچ کر خود کو منا لیا کہ تم نے اپنے لیے اس سے بہتر کچھ سوچا ہوگا اور اسی کے حصول کی خاطر تم نے اپنی راہ بدل لی ہے۔
اب تم کہاں جاؤ گے، کیا کرو گے، مستقبل کا تعلیمی لائحہ عمل کیا ہے؟؟ یہ تو مجھے صحیح طور پہ نہیں معلوم ۔
لیکن تمہارے اس دوست کی تم سے کچھ نصیحتیں ہیں جس کو تم میری جانب سے تحفہ بھی سمجھ سکتے ہو کیونکہ میں تم کو اس سے بہتر اور کچھ نہیں دے سکتا ۔
بس کہنا یہ ہے کہ مصیبتوں سے نہ گھبرانا۔ یہ مصیبتیں اپنی تکلیفی اداؤں سے ڈراتی ہیں، اپنے اندھیروں کا پتا دیتی ہیں، مگر ان اندھیروں کے پار روشنی کا پتہ تمہیں خود لگانا ہے۔
راستہ مشکل لگے تو بدلنا نہیں، بلکہ ان مشکلوں کے پردے کو چاک کر کے اس کے پیچھے چھپی ہوئی کامیابی کو ٹھونڈنا۔
تلاشِ محبت میں نہ نکلنا کہ پوری نسل کا تجربہ تمہارے سامنے کھڑا ہے، بلکہ اپنی ایک منزل بنانا اور اسی منزل کے مجاور بن جانا اور کامیابی کی تلاش میں نکلے بے کسوں کی پناہ کا کام کرنا ۔ جب تم کسی کو کامیابی کی شاہراہ دکھاؤ گے تو اللہ تم کو ضرور کامیاب کرے گا۔
میں تم پر کوئی زور نہیں دیتا اور نہ کوئی زبردستی کر رہا ہوں۔ جو تم بننا چاہو، بننا۔ بس جو بننا اس کی آخری مثال تم رہنا۔
کسی بھی محاذ پر رہنا کتابوں سے اپنا تعلق نہ توڑنا کیونکہ اس سے بہتر تمہیں کوئی ساتھی نہیں مل سکتا، جب تمہارے پاس مال و دولت نہ ہوگا تب کتابیں تمہیں کسی کے سامنے جھکنے نہ دیں گی۔
تم کل کوئی چھوٹا پیشہ کرنا یا کسی بڑے منصب پر بیٹھنا اس ذمہ داری کو اتنے اچھے سے نبھانا کہ وہ پیشہ اور وہ منصب دوبارہ تمہاری تلاش میں رہے۔ ہر وہ کام جو تم کرنا  وہ تم سے پہچانا جائے۔ اس کام کا منتہائے کمال تم بننا بس یہ تمہارا دوست چاہتا ہے
تمہاری پہچان تمہاری موجودہ حالت ہو ماضی نہ ہو ۔سفر سے تھک جانا تو آرام کے لیے رکنے کہ بجائے قدموں کو نئی منزلوں کی راحتوں سے روشناس کرانا ۔
تمہارا کوئی ہو یا نہ ہو تم سب کے بننا۔تمہیں کوئی نوازے یا نہ نوازے تم سب کو عطا کرنا، اپنا ہو یا پرایا ہر ایک کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا۔
جس میدان میں بھی جانا کسی غیر کے اثر کو قبول نہ کرنا بلکہ اپنا اثر چھوڑ دینا۔
صرف اپنے ہی لوگوں سہارا نہ بننا بلکہ  ہر بے کس و مجبور کا مسیحا بن جانا۔
راتوں کو آرام کا وقت نہ سمجھنا بلکہ انہیں راتوں میں ماہتاب کھینچ لانے کا ملکہ حاصل کرنا ۔
اپنے تعلیمی سفر کو ایک نصب العین بنا کر جاری رکھنا، دولت اور حسن کے مسافر نہ بننا بلکہ پوری توجہ کو علم کے حصول کے لیے مبذول کرنا کیوں کہ علم میں مہارت حاصل کرلوگے تو یہ تمام چیزیں تمہاری بارگاہ کی باندی ہوں۔
یہ کچھ ٹوٹے پھوٹے کلمات تھے باقی میری دعا یہی ہے کہ اللہ تم کو تمہارے مقصد میں کامیاب کرے جہاں جاؤ وہاں روشنی لٹاؤ ۔
جو خوشی تمھارے قریب ہو ، وہ صدا تمھارے نصیب ہو
تجھے وہ خلوص ملے کہ جو، تیری زندگی پہ محیط ہو
جو معیار تجھ کو پسند ہو ، جو تمھارے دل کی امنگ ہو
تیری زندگی جو طلب کرے، تیرے ہمسفر کا وہ رنگ ہو
جو خیال دل میں اسیر ہو ، ہر دعا میں ایسی تاثیر ہو
تیرے ہاتھ اٹھتے ہی یک بیک، تیرے آگے اسکی تعبیر ہو
تجھے وہ جہاں ملے جدھر ، کسی غم کا کوئی گذر نہ ہو
جہاں روشنی ہو خلوص کی ، اور نفرتوں کی خبر نہ ہو۔

عزیز بیٹی ملالہ

 عزیز بیٹی ملالہ سلامت رہو امید ہے اپنے محبت کرنے والوں کے درمیان خوش و خرم ہو گی  بڑے دنوں سے دل چاہتا تھا تم سے بات کروں مگر کوئی موقعہ نہ...